وَ قَالَ نِسۡوَۃٌ فِی الۡمَدِیۡنَۃِ امۡرَاَتُ الۡعَزِیۡزِ تُرَاوِدُ فَتٰىہَا عَنۡ نَّفۡسِہٖ ۚ قَدۡ شَغَفَہَا حُبًّا ؕ اِنَّا لَنَرٰىہَا فِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ﴿۳۰﴾

۳۰۔ اور شہر کی عورتوں نے کہنا شروع کیا: عزیز کی بیوی اپنے غلام کو اس کے ارادے سے پھسلانا چاہتی ہے، اس کی محبت اس کے دل کی گہرائیوں میں اتر چکی ہے، ہم تو اسے یقینا صریح گمراہی میں دیکھ رہی ہیں۔

30۔ یوسف علیہ السلام کے ساتھ معاشقہ کا معاملہ ایک مدت تک درون خانہ چلتا رہا۔ رفتہ رفتہ یہ بات گھر سے باہر نکل گئی۔ شہر کی عورتوں میں یہ بات پھیل گئی اور طعنہ زنی شروع ہو گئی، عزیز کی بیوی اپنے غلام پر فریفتہ ہو گئی ہے جو مصری بھی نہیں، کنعانی ہے۔ اگر یہ لڑکا حسن و جمال کا مالک بھی ہے تو شہزادی کے حسن و جمال سے زیادہ نہ ہو گا۔ ان تمام باتوں کے باوجود یکطرفہ محبت تو شہزادی کے لیے عار و ننگ ہے کہ اس کا زر خرید غلام اس کے عشق و محبت کو اعتنا میں نہ لائے اور عورت کے لیے یہ بھی عار و ننگ ہے کہ وہ مرد کے پیچھے دوڑے۔ عین ممکن ہے کہ شہر کے بڑے خاندان کی عورتوں نے یوسف علیہ السلام کی صورت و سیرت کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے حیلہ بازیاں کی ہوں یا عزیز کی عورت کے خلاف سازش کی ہو۔ کیونکہ بعد کی آیت میں اس عمل کو مکاری سے تعبیر کیا ہے۔