کرتے کی گواہی میں موجود نکات


فَلَمَّا رَاٰ قَمِیۡصَہٗ قُدَّ مِنۡ دُبُرٍ قَالَ اِنَّہٗ مِنۡ کَیۡدِکُنَّ ؕ اِنَّ کَیۡدَکُنَّ عَظِیۡمٌ﴿۲۸﴾

۲۸۔جب اس نے دیکھا کہ کرتہ تو پیچھے سے پھٹا ہے (تو اس کے شوہر نے) کہا: بے شک یہ (سب) تم عورتوں کی فریب کاری ہے، تم عورتوں کی فریب کاری تو بہت بھاری ہوتی ہے۔

28۔ واقعہ کی حقیقت حال کا عینی نہ سہی لیکن عقلی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ اگر کرتہ آگے سے پھٹا ہے تو اقدام یوسف علیہ السلام کی طرف سے ہوا ہو گا اور مدافعت عورت کی طرف سے ہوئی ہو گی اور اگر کرتہ پیچھے سے پھٹا ہو تو یوسف علیہ السلام بچ نکلنا چاہتے تھے اور عورت نے تعاقب کیا ہو گا۔ حالات کی شہادت حضرت یوسف علیہ السلام کے حق میں تھی۔ اس لیے شوہر نے بادی الرائے میں اپنی بیوی کو مجرم قرار دے کر کہا : تم عورتوں کی فریب کاری عظیم ہوتی ہے۔ لیکن قدیم سے مراعات یافتہ طبقے ہمیشہ اپنے گھروں میں ہونے والے جنسی سکینڈلوں کا الزام دوسروں پر ڈالتے رہے ہیں۔

اس آیہ شریفہ سے درج ذیل نکات سامنے آتے ہیں:٭ جو دنیا کی رسوائیوں سے بھاگ نکلتا ہے وہ کسی بھی دروازے پر رسوا نہیں ہوتا۔ ٭کسی کا دامن عفت چاک نہ کر ورنہ اپنا دامن چاک ہو جائے گا: وَ قَدَّتۡ قَمِیۡصَہٗ ۔ ٭ مخالف فریق سے بھی حق کو حمایت مل سکتی ہے: شَہِدَ شَاہِدٌ مِّنۡ اَہۡلِہَا ٭ جنسی معاملات میں عورت کی فریب کاری عظیم ہوتی ہے: اِنَّ کَیۡدَکُنَّ عَظِیۡمٌ ۔