آیت 23
 

وَ رَاوَدَتۡہُ الَّتِیۡ ہُوَ فِیۡ بَیۡتِہَا عَنۡ نَّفۡسِہٖ وَ غَلَّقَتِ الۡاَبۡوَابَ وَ قَالَتۡ ہَیۡتَ لَکَ ؕ قَالَ مَعَاذَ اللّٰہِ اِنَّہٗ رَبِّیۡۤ اَحۡسَنَ مَثۡوَایَ ؕ اِنَّہٗ لَا یُفۡلِحُ الظّٰلِمُوۡنَ﴿۲۳﴾

۲۳۔ اور یوسف جس عورت کے گھر میں تھے اس نے انہیں اپنے ارادے سے منحرف کر کے اپنی طرف مائل کرنا چاہا اور سارے دروازے بند کر کے کہنے لگی: آ جاؤ، یوسف نے کہا: پناہ بخدا! یقینا میرے رب نے مجھے اچھا مقام دیا ہے، بے شک اللہ ظالموں کو کبھی فلاح نہیں دیتا۔

تشریح کلمات

وَ رَاوَدَ:

( ر و د ) کے اصل معنی نرمی کے ساتھ کسی کی طلب میں بار بار آمد و رفت کے ہیں۔ رَاوَدَ بروزن مفاعلہ کے معنی ارادوں میں باہمی اختلاف اور کشیدگی کے ہیں۔ رودتہ عن نفسہ اس کو اس کے ارادے سے پھسلانے کی کوشش کی۔

ہَیۡتَ لَکَ:

( ھـ ی ت ) ھیت اور ھلم دونوں کے ایک ہی معنی ہیں یعنی۔۔آ جا۔۔ واحد جمع مؤنث مذکر کے لیے ایک لفظ استعمال ہوتا ہے۔ البتہ عدد کے لیے بعد کا لفظ قرینہ بنتا ہے۔ ھیت لک، ھیت لکما، ھیت لکن ۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ رَاوَدَتۡہُ الَّتِیۡ ہُوَ: حضرت یوسف علیہ السلام عزیز مصر کے گھر کا حصہ بن گئے تھے اور اس گھر میں یوسف علیہ السلام ایک غلام کی نہیں بلکہ قابل احترام شخصیت کی حیثیت سے رہ رہے تھے۔ گھر کی مالکہ کو یہ حکم ملا ہوا ہے کہ یوسف علیہ السلام کا مقام معزز رکھنا اور وہ خود بھی یوسف علیہ السلام کی آتش عشق میں سوزاں ہے لہٰذا یوسف علیہ السلام کو اسی گھر میں ایسا ماحول فراہم ہے جس کے تحت انسان میں غرور آ جاتا ہے۔ ایسے ماحول میں ایک طرف ملک کی شہزادی، گھر کی مالکہ ہے، خلوت ہے، افشا کا خوف نہیں کیونکہ سب کچھ خاتون خانہ کے کنٹرول میں ہے۔

۲۔ وَ غَلَّقَتِ الۡاَبۡوَابَ: سارے دروازے بند کر کے ماحول کو سازگار بنایا جاتا ہے۔ عورت شرم و حیا کی مالک ہوتی ہے۔ اس کی طر ف سے اسیر جنس مرد کو دعوت دی جاتی ہے: ہَیۡتَ لَکَ اب یوسف علیہ السلام اور اس شہزادی کے درمیان سوائے یوسف علیہ السلام کی ایک توجہ کے اور کوئی رکاوٹ نہیں اور یوسف علیہ السلام کی توجہ کے لیے نہ صرف کوئی رکاوٹ نہیں ہے بلکہ مختلف عوامل موجود ہیں۔ یوسف علیہ السلام کامل الخلقت مرد ہے۔ ابتدائے شباب میں شہوانی جنون کا وقت ہے۔ ان سب باتوں کے باوجود یوسف علیہ السلام کی طرف سے جو جواب ملتا ہے اس میں اس طاقت کا بھی ذکر ہے جس نے یوسف علیہ السلام کو اس نازک ترین مرحلہ میں سہارا دیا۔ وہ جواب یہ تھا:

۴۔ قَالَ مَعَاذَ اللّٰہِ: پناہ بخدا۔ اس جوان صالح نے اس ذات کا سہارا لیا جس نے اسے ممتاز مقام دیا اور کہا: میرے رب نے مجھے اچھا مقام دیا ہے۔ اس کی پناہ میں ہونے کی وجہ سے یوسف علیہ السلام اس امتحانی مرحلے میں کامیابی کے ساتھ سرخ رو رہے۔

۵۔ رَبِّیۡۤ اَحۡسَنَ مَثۡوَایَ: میرے رب نے مجھے بہتر مقام عنایت کیا ہے۔ بعض مفسرین کے نزدیک اس رب سے یوسف علیہ السلام کی مراد عزیز مصر ہے اور حضرت یوسف علیہ السلام نے اس کو مصری اصطلاح کے مطابق رب کہا ہے۔ یہ نظریہ درست نہیں ہو سکتا ہے۔ یہ ناممکن ہے کہ اس گناہ کے ارتکاب سے اللہ کے لیے نہیں ، گھر کے مالک کی وجہ سے اجتناب کیا ہے۔ ثانیاً اگلی آیت میں اس بات کی تشریح موجود ہے کہ ترک گناہ میں برہان رب موجب بنی ہے: لَوۡ لَاۤ اَنۡ رَّاٰ بُرۡہَانَ رَبِّہٖ ۔۔۔۔ اس رب سے مراد مالک خانہ ہرگز نہیں ہو سکتا۔ ثالثاً حضرت یوسف علیہ السلام مالک خانہ کو رب کیوں کر کہے جب کہ آپؑ کو علم ہے کہ آپؑ غلام نہیں ہیں۔

اہم نکات

۱۔ زنا ایسا ظلم ہے جس میں ناکامی ہے: اِنَّہٗ لَا یُفۡلِحُ الظّٰلِمُوۡنَ ۔

۲۔ جو ذات اللہ کی پناہ میں ہوتی ہے وہ گناہ نہیں کرتی: قَالَ مَعَاذَ اللّٰہِ ۔۔۔۔

۳۔ جنسی شہوت کا خطرہ انسان کے لیے سب سے بڑا ہے۔

۴۔ اسلامی شریعت میں نامحرم عورت کے ساتھ ایک گھر میں تنہا رہنا جائز نہیں ہے۔


آیت 23