اِلَّا الَّذِیۡنَ صَبَرُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ؕ اُولٰٓئِکَ لَہُمۡ مَّغۡفِرَۃٌ وَّ اَجۡرٌ کَبِیۡرٌ﴿۱۱﴾

۱۱۔البتہ صبر کرنے والے اور نیک اعمال بجا لانے والے ایسے نہیں ہیں ان کے لیے مغفرت اور بڑا اجر ہے۔

فَلَعَلَّکَ تَارِکٌۢ بَعۡضَ مَا یُوۡحٰۤی اِلَیۡکَ وَ ضَآئِقٌۢ بِہٖ صَدۡرُکَ اَنۡ یَّقُوۡلُوۡا لَوۡ لَاۤ اُنۡزِلَ عَلَیۡہِ کَنۡزٌ اَوۡ جَآءَ مَعَہٗ مَلَکٌ ؕ اِنَّمَاۤ اَنۡتَ نَذِیۡرٌ ؕ وَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ وَّکِیۡلٌ ﴿ؕ۱۲﴾

۱۲۔ (اے رسول) آپ کی طرف جو وحی کی گئی ہے شاید آپ اس کا کچھ حصہ چھوڑنے والے ہیں اور ان کی اس بات پر دل تنگ ہو رہے ہیں کہ اس پر خزانہ کیوں نازل نہیں ہوا یا اس کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہیں آیا؟ آپ تو صرف تنبیہ کرنے والے ہیں اور اللہ ہر چیز کا ذمہ دار ہے۔

12۔ نہایت نامساعد حالات میں بار رسالت کی سنگینی کی طرف اشارہ ہے کہ لوگوں کے راہ راست پر آنے کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے بلکہ ان کے عناد اور ہٹ دھرمی میں اضافہ ہوتا ہے۔ ایسے میں یہ خیال دل میں آ سکتا ہے کہ وحی کی باتیں سنانے کا کیا فائدہ۔ آیت میں بتایا گیا ہے کہ ابلاغ وحی کا مطلب صرف ایمان لے آنا نہیں ہے بلکہ صرف تبلیغ سے بھی کچھ حکمتیں وابستہ ہیں یا آپ صرف تنبیہ و تبلیغ کریں اور بس۔ انہیں گرفت میں لینا ہمارا کام ہے۔ اس آیت سے یہ بات ہرگز ثابت نہیں ہوتی کہ رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ترک تبلیغ کا قصد رکھتے تھے۔

اَمۡ یَقُوۡلُوۡنَ افۡتَرٰىہُ ؕ قُلۡ فَاۡتُوۡا بِعَشۡرِ سُوَرٍ مِّثۡلِہٖ مُفۡتَرَیٰتٍ وَّ ادۡعُوۡا مَنِ اسۡتَطَعۡتُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ﴿۱۳﴾

۱۳۔کیا یہ کہتے ہیں کہ اس نے (قرآن کو) خود بنایا ہے؟ کہدیجئے: اگر تم سچے ہو تو اس جیسی خود ساختہ دس سورتیں بنا لاؤ اور اللہ کے سوا جس جس کو بلا سکتے ہو بلا لاؤ۔

13۔ قرآن نے کئی بار چیلنج کیا ہے کہ اگر یہ قرآن کسی ایک انسان کا تصنیف ہے تو تمہارے درمیان بھی ایسا انسان موجود ہو گا جو ایسا کلام تصنیف کر سکے۔ ایک سے نہیں ہوتا تو پوری جماعت مل کر ایسا کلام بنا لائے جس میں انسانیت کے لیے ایک پیغام ہو اور دنیا و آخرت دونوں کی بھلائی ہو۔ مضمون بھی اسی طرح کا ہو اور ساتھ اسلوب کلام بھی یہی ہو۔لیکن بار بار چیلنج دینے کے باوجود تم ایسا کلام پیش نہیں کر سکتے تو تمہیں قبول کرنا ہو گا کہ یہ میرا نہیں اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔

فَاِلَّمۡ یَسۡتَجِیۡبُوۡا لَکُمۡ فَاعۡلَمُوۡۤا اَنَّمَاۤ اُنۡزِلَ بِعِلۡمِ اللّٰہِ وَ اَنۡ لَّاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ۚ فَہَلۡ اَنۡتُمۡ مُّسۡلِمُوۡنَ﴿۱۴﴾

۱۴۔ پھر اگر وہ تمہاری مدد کو نہ پہنچیں تو جان لو کہ یہ اللہ کے علم سے نازل ہوا ہے اور یہ کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، کیا تم اس بات کو تسلیم کرنے والے ہو؟

14۔ اس چیلنج میں اللہ کی وحدانیت کا ثبوت بھی فراہم ہے کہ اگر تمہارے خداؤں کا بھرپور مخالف اور توحید کا علمبردار یہ قرآن محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا اپنا خود ساختہ ہے تو اپنے خداؤں کو مدد کے لیے بلاؤ۔ اگر ان کو خدائی میں کوئی دخل ہے تو وہ تم میں ایسی صلاحیت پیدا کر دیں گے کہ تم اس قرآن کا مقابلہ کر سکو۔ اگر ایسا نہ کیا تو یہ بات ثابت ہو جاتی ہے: ٭قرآن اللہ کا کلام ہے۔ ٭ تمہارے معبود سب خود ساختہ ہیں ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ ٭ قرآن ہر مؤقف کے لیے دلیل پیش کرتا ہے۔

مَنۡ کَانَ یُرِیۡدُ الۡحَیٰوۃَ الدُّنۡیَا وَ زِیۡنَتَہَا نُوَفِّ اِلَیۡہِمۡ اَعۡمَالَہُمۡ فِیۡہَا وَ ہُمۡ فِیۡہَا لَا یُبۡخَسُوۡنَ﴿۱۵﴾

۱۵۔ جو دنیوی زندگی اور اس کی زینت کے طالب ہوتے ہیں ان کی محنتوں کا معاوضہ ہم انہیں دنیا ہی میں دے دیتے ہیں اور ان کے لیے اس میں کمی نہیں کی جائے گی۔

15۔ اس روئے زمین پر اللہ تعالیٰ کا ایک مادی و تکوینی نظام ہے جسے نظامِ علل و اسباب کہتے ہیں۔ اس نظام کے تحت جو بھی ان علل و اسباب کو بروئے کار لائے گا، وہ نتیجہ اخذ کرے گا۔ اس میں مومن و کافر کا کوئی فرق نہیں۔ فرق یہ ہے کہ کافر کا نصب العین صرف دنیا ہے، اس لیے کافر کو اس کی محنتوں کا نتیجہ اسی دنیا میں دے دیا جاتا ہے۔ وَ ہُمۡ فِیۡہَا لَا یُبۡخَسُوۡنَ ۔ اللہ کے مادی و تکوینی قانون میں کسی کی حق تلفی نہیں کی جاتی، البتہ آخرت میں انہیں کچھ نہیں ملے گا، خواہ کافر کے عمل میں اگرچہ حسن ہو لیکن عمل کنندہ میں حسن نہیں ہے۔ یہ اسی طرح ہے کہ ایک بدکار عورت اپنی نا جائز کمائی سے یتیم پالتی ہو۔ اسی طرح ایک منکر خدا جو خدا کے وجود کا معترف نہیں یا اس کے ساتھ شرک کر کے مقام الہٰیت میں جسارت کا ارتکاب کرتا ہے نیز وہ اپنا کام اللہ کے لیے کرتا ہی نہیں تاکہ اللہ سے اسے کوئی صلہ مل جائے۔ اس میں وہ ریاکار بھی شامل ہے جو اپنے اعمال دنیاوی مفاد کے لیے انجام دیتا ہے، وہ نیک اعمال انجام دیتا ہے لیکن اس کی نمازوں، روزوں اور خدمات کا نصب العین اللہ نہیں، دنیاوی مفادات ہیں، اس کے اعمال حبط ہو جاتے ہیں اور سارا کیا دھرا ناکارہ ہو جاتا ہے۔

اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ لَیۡسَ لَہُمۡ فِی الۡاٰخِرَۃِ اِلَّا النَّارُ ۫ۖ وَ حَبِطَ مَا صَنَعُوۡا فِیۡہَا وَ بٰطِلٌ مَّا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ﴿۱۶﴾

۱۶۔ ایسے لوگوں کے لیے آخرت میں آتش کے سوا کچھ نہ ہو گا اور وہاں ان کے عمل برباد اور ان کا کیا دھرا سب نابود ہو جائے گا۔

اَفَمَنۡ کَانَ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنۡ رَّبِّہٖ وَ یَتۡلُوۡہُ شَاہِدٌ مِّنۡہُ وَ مِنۡ قَبۡلِہٖ کِتٰبُ مُوۡسٰۤی اِمَامًا وَّ رَحۡمَۃً ؕ اُولٰٓئِکَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِہٖ ؕ وَ مَنۡ یَّکۡفُرۡ بِہٖ مِنَ الۡاَحۡزَابِ فَالنَّارُ مَوۡعِدُہٗ ۚ فَلَا تَکُ فِیۡ مِرۡیَۃٍ مِّنۡہُ ٭ اِنَّہُ الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّکَ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ﴿۱۷﴾

۱۷۔ بھلا وہ شخص (افترا کر سکتا ہے) جو اپنے رب کی طرف سے واضح دلیل رکھتا ہو اور اس کے پیچھے اس کے رب کی طرف سے ایک شاہد بھی آیا ہو اور اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب (بھی دلیل ہو جو) راہنما اور رحمت بن کر آئی ہو؟ یہی لوگ اس پر ایمان لائیں گے اور دوسرے فرقوں میں سے جو کوئی اس کا انکار کریں تو اس کی وعدہ گاہ آتش جہنم ہے، آپ اس (قرآن) کے بارے میں کسی شک میں نہ رہیں، یقینا یہ آپ کے رب کی طرف سے حق ہے لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے۔

17۔ ابو حاتم ابن مردویہ، ابونعیم اور ابن عساکر کی روایت ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: عَلٰی بَیِّنَۃٍ سے مراد حضرت رسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں اور شَاہِدٌ مِّنۡہُ سے مراد میں ہوں۔ (الدرالمنثور 3: 586)

وَ مَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنِ افۡتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا ؕ اُولٰٓئِکَ یُعۡرَضُوۡنَ عَلٰی رَبِّہِمۡ وَ یَقُوۡلُ الۡاَشۡہَادُ ہٰۤؤُلَآءِ الَّذِیۡنَ کَذَبُوۡا عَلٰی رَبِّہِمۡ ۚ اَلَا لَعۡنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الظّٰلِمِیۡنَ ﴿ۙ۱۸﴾

۱۸۔ اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو اللہ پر جھوٹ افترا کرتا ہے، ایسے لوگ اپنے رب کے حضور پیش کیے جائیں گے اور گواہ کہیں گے: یہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب پر جھوٹ بولا تھا، خبردار! ظالموں پر اللہ کی لعنت ہے۔

18۔ مشرکین کا مؤقف یہ تھا کہ رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خود ایک کتاب بنائی اور اسے اللہ کی طرف نسبت دی اور افتراء کیا۔ جواباً اس آیت میں فرمایا: وہ افترا باز جو سب سے بڑھ کر ظالم ہے، تم خود ہو۔ اللہ پر شرک کر کے افترا کرتے ہو، اللہ کی طرف جھوٹی نسبت دیتے ہو۔

الَّذِیۡنَ یَصُدُّوۡنَ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ یَبۡغُوۡنَہَا عِوَجًا ؕ وَ ہُمۡ بِالۡاٰخِرَۃِ ہُمۡ کٰفِرُوۡنَ﴿۱۹﴾

۱۹۔ جو لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکتے ہیں اور اس میں کجی لانا چاہتے ہیں اور یہی لوگ آخرت کے منکر ہیں۔

اُولٰٓئِکَ لَمۡ یَکُوۡنُوۡا مُعۡجِزِیۡنَ فِی الۡاَرۡضِ وَ مَا کَانَ لَہُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ مِنۡ اَوۡلِیَآءَ ۘ یُضٰعَفُ لَہُمُ الۡعَذَابُ ؕ مَا کَانُوۡا یَسۡتَطِیۡعُوۡنَ السَّمۡعَ وَ مَا کَانُوۡا یُبۡصِرُوۡنَ﴿۲۰﴾

۲۰۔ یہ لوگ زمین میں اللہ کو عاجز نہیں کر سکتے اور نہ اللہ کے سوا ان کا کوئی حامی ہے ان کا عذاب دوگنا کیا جائے گا، کیونکہ وہ (کسی کی) سن ہی نہ سکتے تھے اور نہ ہی دیکھتے تھے ۔