آیات 20 - 22
 

اُولٰٓئِکَ لَمۡ یَکُوۡنُوۡا مُعۡجِزِیۡنَ فِی الۡاَرۡضِ وَ مَا کَانَ لَہُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ مِنۡ اَوۡلِیَآءَ ۘ یُضٰعَفُ لَہُمُ الۡعَذَابُ ؕ مَا کَانُوۡا یَسۡتَطِیۡعُوۡنَ السَّمۡعَ وَ مَا کَانُوۡا یُبۡصِرُوۡنَ﴿۲۰﴾

۲۰۔ یہ لوگ زمین میں اللہ کو عاجز نہیں کر سکتے اور نہ اللہ کے سوا ان کا کوئی حامی ہے ان کا عذاب دوگنا کیا جائے گا، کیونکہ وہ (کسی کی) سن ہی نہ سکتے تھے اور نہ ہی دیکھتے تھے ۔

اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ خَسِرُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ وَ ضَلَّ عَنۡہُمۡ مَّا کَانُوۡا یَفۡتَرُوۡنَ﴿۲۱﴾

۲۱۔ یہی لوگ ہیں جو اپنے آپ کو خسارے میں ڈال چکے ہیں اور وہ جو کچھ افترا کرتے تھے وہ بھی ان سے کھو گیا ۔

لَا جَرَمَ اَنَّہُمۡ فِی الۡاٰخِرَۃِ ہُمُ الۡاَخۡسَرُوۡنَ﴿۲۲﴾

۲۲۔ لازمی بات ہے آخرت میں یہ لوگ سب سے زیادہ گھاٹے میں ہوں گے۔

تفسیر آیات

۱۔ اُولٰٓئِکَ لَمۡ یَکُوۡنُوۡا: ان افترا کرنے والوں کی حالت یہ ہے کہ نہ تو اللہ کے مقابلے میں یہ خود کسی طاقت و قوت کے مالک ہیں ، نہ ہی اللہ سے ہٹ کر ان کا کوئی اور حامی اور کارساز ہے۔ ان کو بالآخرہ اللہ کی بارگاہ میں پلٹ کر آنا ہو گا۔

۲۔ یُضٰعَفُ لَہُمُ الۡعَذَابُ: وہاں ان کو دوگنا عذاب ملے گا کیونکہ یہ خود بھی گمراہ تھے اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے تھے۔ چنانچہ آیات قرآنی اور سنت نبوی میں یہ بات ثابت ہے:

من سن سنۃ سیئۃ کان علیہ وزرھا و وزر من عمل بھا ۔۔۔۔ (بحار ۷۱: ۲۰۴)

جو ایک گناہ کا رواج ڈالے گا تو اس پر رواج ڈالنے کا گناہ ہے اور جس جس نے اس گناہ پر عمل کیا ہے اس کا گناہ اس کے ذمے ہے۔

گمراہی کی وجہ یہ رہی کہ یہ لوگ کسی ہادی کی ہدایت یا کسی ناصح کی تنبیہ کو سننے کے لیے آمادہ ہی نہ تھے۔ نہ ہی آیات الٰہی پر فکر و نظر سے کام لیتے تھے۔ جیسے دوسری جگہ فرمایا:

وَ لَہُمۡ اَعۡیُنٌ لَّا یُبۡصِرُوۡنَ بِہَا ۫ وَ لَہُمۡ اٰذَانٌ لَّا یَسۡمَعُوۡنَ بِہَا ۔۔۔۔ (۷ اعراف: ۱۷۹)

اور ان کی آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں۔۔۔۔

۳۔ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ خَسِرُوۡۤا: یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی حیات کا سودا ہلاکت سے کیا تو بڑے خسارے کا سودا کیا۔ ان کے لیے سب سے عزیز اپنی زندگی تھی۔ اسے دے کر ابدی ہلاکت خرید لی۔ اس سے زیادہ خسارہ کیا ہو گا۔

۴۔ وَ ضَلَّ عَنۡہُمۡ: اور جن کو ان لوگوں نے اللہ کے ساتھ شریک گردانا تھا،قیامت کے دن وہ ان کو ڈھونڈنے سے نہیں ملے گا۔

۵۔ لَا جَرَمَ: لہٰذا یہ بات لازمی ہے کہ یہ لوگ قیامت کے دن، اپنی زندگی کا خسارہ اٹھانے والوں میں سب سے زیادہ خسارہ والے ہوں گے۔ لا اور جرم بعض اہل لغت کے نزدیک ایک لفظ ہے۔ بعض کہتے ہیں اس کے معنی لابد اور لا محالہ کے ہیں۔

اہم نکات

۱۔ آخرت میں سب سے زیادہ گھاٹے میں وہ لوگ ہوں گے جو دنیا میں ہادیان برحق کی نصیحت سننے کے لیے آمادہ نہ تھے۔

۲۔ آخرت میں قدریں اجاگر ہو جاتی ہیں۔ فِی الۡاٰخِرَۃِ ہُمُ الۡاَخۡسَرُوۡنَ۔۔۔۔


آیات 20 - 22