آیات 15 - 16
 

مَنۡ کَانَ یُرِیۡدُ الۡحَیٰوۃَ الدُّنۡیَا وَ زِیۡنَتَہَا نُوَفِّ اِلَیۡہِمۡ اَعۡمَالَہُمۡ فِیۡہَا وَ ہُمۡ فِیۡہَا لَا یُبۡخَسُوۡنَ﴿۱۵﴾

۱۵۔ جو دنیوی زندگی اور اس کی زینت کے طالب ہوتے ہیں ان کی محنتوں کا معاوضہ ہم انہیں دنیا ہی میں دے دیتے ہیں اور ان کے لیے اس میں کمی نہیں کی جائے گی۔

اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ لَیۡسَ لَہُمۡ فِی الۡاٰخِرَۃِ اِلَّا النَّارُ ۫ۖ وَ حَبِطَ مَا صَنَعُوۡا فِیۡہَا وَ بٰطِلٌ مَّا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ﴿۱۶﴾

۱۶۔ ایسے لوگوں کے لیے آخرت میں آتش کے سوا کچھ نہ ہو گا اور وہاں ان کے عمل برباد اور ان کا کیا دھرا سب نابود ہو جائے گا۔

تفسیر آیات

۱۔ مَنۡ کَانَ یُرِیۡدُ الۡحَیٰوۃَ الدُّنۡیَا: قریش کے دنیا پرستوں کے زرق برق سے مسلمان متاثر نہ ہوں۔

اس روئے زمین پر اللہ تعالیٰ کا ایک فیزیکلی نظام نافذ ہے جسے نظام علل و اسباب کہتے ہیں۔ اس نظام کے تحت جو بھی ان علل و اسباب کو بروئے کار لائے گا اس کا نتیجہ حاصل کرے گا۔ ان علل و اسباب سے ایک کافر کو بھی اسی طرح نتیجہ ملے گا جس طرح ایک مؤمن کو ملتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ کافر کا نصب العین صرف دنیا کی ترقی اور آسائش ہے اس لیے کافر کو اس کی محنتوں کا صلہ اسی دنیا ہی میں دے دیا جاتا ہے۔ وَ ہُمۡ فِیۡہَا لَا یُبۡخَسُوۡنَ: اللہ کے فیزیکلی قانون میں کسی کی حق تلفی نہیں کی جاتی ہے۔

۲۔ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ لَیۡسَ لَہُمۡ: اور آخرت میں اسے کچھ نہیں ملے گا۔ خواہ اس کا یہ عمل اپنی جگہ انسانیت کے لیے خدمت ہی کیوں نہ ہو کیونکہ کافر کی طرف سے جو انسانی خدمت ہوتی ہے اس خدمت میں تو حسن ہے لیکن اس خدمت کے انجام دینے والے میں کوئی حسن نہیں ہے۔ دوسرے لفظوں میں فعل میں حسن ہے لیکن فاعل میں حسن نہیں ہے۔ یہ ایسا ہے جیسا کہ ایک بدکار عورت اپنی ناجائز کمائی سے یتیم پالتی ہے۔ اسی طرح ایک منکر خدا جو خدا کے وجود کا معترف نہیں یا اس کے ساتھ شرک کر کے مقام الہٰیت میں جسارت کا ارتکاب کرتا ہے اس کا اپنا کام اللہ کے لیے ہوتا ہی نہیں تاکہ اسے اللہ سے کوئی صلہ مل جائے۔

۳۔ وَ حَبِطَ مَا صَنَعُوۡا فِیۡہَا: اس میں وہ ریا کار بھی شامل ہے جو اپنے اعمال کو دنیاوی مفاد کے لیے انجام دیتا ہے۔ وہ نیک اعمال بجا لاتا ہے لیکن اس کی نمازوں ، روزوں اور خدمات کا نصب العین اللہ نہیں، دنیاوی مفادات ہیں۔ اس کے اعمال حبط ہو جاتے ہیں اور سارا کیا دھرا ناکارہ ہو جاتا ہے۔

مؤمن کو بھی ان علل و اسباب سے وہی نتیجہ ملتا ہے مگر مؤمن کا نصب العین صرف دنیاوی زیب و زینت تک محدود نہیں ہے۔ مؤمن کی دنیا بھی اللہ کے لیے ہے۔ وہ جس منہ سے کھاتا ہے اسی منہ سے یہ دعا نکلتی ہے: قوّ علی خدمتک جوارحی ۔ تیری عبادت کے لیے میرے اعضاء میں طاقت عنایت فرما۔

ایسے مؤمنوں کے بارے میں اللہ کا ارشاد ہے:

فَاٰتٰىہُمُ اللّٰہُ ثَوَابَ الدُّنۡیَا وَ حُسۡنَ ثَوَابِ الۡاٰخِرَۃِ ۔۔۔۔ ( ۳ آل عمران: ۱۴۸)

چنانچہ اللہ نے انہیں دنیا کا ثواب بھی دیا اور آخرت کا بہتر ثواب بھی عطا کیا۔۔۔۔

اہم نکات

۱۔ اس آیت سے اس سوال کا جواب بھی ملا کہ کافر بہتر ترقی میں کیوں ہیں ؟ مَنۡ کَانَ یُرِیۡدُ الۡحَیٰوۃَ الدُّنۡیَا ۔۔۔۔

۲۔ مادی ترقی کا انحصار محنت اور کاوش پر ہے نظریہ و عقیدہ پر نہیں: نُوَفِّ اِلَیۡہِمۡ اَعۡمَالَہُمۡ فِیۡہَا ۔۔۔۔

۳۔ اللہ کا عدل و احسان ہے کہ دنیا پرست کی نیکی کا معاوضہ دنیا میں ہی دیتا ہے: وَ ہُمۡ فِیۡہَا لَا یُبۡخَسُوۡنَ ۔۔


آیات 15 - 16