آیات 9 - 11
 

وَ لَئِنۡ اَذَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنَّا رَحۡمَۃً ثُمَّ نَزَعۡنٰہَا مِنۡہُ ۚ اِنَّہٗ لَیَـُٔوۡسٌ کَفُوۡرٌ﴿۹﴾

۹۔ اور اگر ہم انسان کو اپنی رحمت سے نوازنے کے بعد وہ نعمت اس سے چھین لیں تو بیشک وہ ناامید اور ناشکرا ہو جاتا ہے۔

وَ لَئِنۡ اَذَقۡنٰہُ نَعۡمَآءَ بَعۡدَ ضَرَّآءَ مَسَّتۡہُ لَیَقُوۡلَنَّ ذَہَبَ السَّیِّاٰتُ عَنِّیۡ ؕ اِنَّہٗ لَفَرِحٌ فَخُوۡرٌ ﴿ۙ۱۰﴾

۱۰۔ اور اگر ہم اسے تکلیفوں کے بعد نعمتوں سے نوازتے ہیں تو ضرور کہ اٹھتا ہے: سارے دکھ مجھ سے دور ہو گئے،بیشک وہ خوب خوشیاں منانے اور اکڑنے لگتا ہے

اِلَّا الَّذِیۡنَ صَبَرُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ؕ اُولٰٓئِکَ لَہُمۡ مَّغۡفِرَۃٌ وَّ اَجۡرٌ کَبِیۡرٌ﴿۱۱﴾

۱۱۔البتہ صبر کرنے والے اور نیک اعمال بجا لانے والے ایسے نہیں ہیں ان کے لیے مغفرت اور بڑا اجر ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَلَىِٕنْ اَذَقْنَا: انسان کی جلد بازی اور کم ظرفیت کی بات ہے کہ نعمتوں کے چھن جانے سے یہ خیال کرتا ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے رحمت و نعمت نہیں اس کا اپنا حق تھا جو ناحق چھن گیا اور جتنی دیر وہ اس نعمت سے مستفید رہا اس کا شکر بھی نہیں کرتا۔

۲۔ وَلَىِٕنْ اَذَقْنٰہُ: اسی طرح جب بدحالی کے بعد نعمتوں کا وفور ہونے لگتا ہے تو وہ اس انداز سے خوشیاں مناتا اور اکڑتا ہے کہ برے دن گئے اور دوبارہ ان برے دنوں کے آنے کا امکان ہی نہیں ہے اور ان نعمتوں کے لیے زوال ہی نہیں ہے۔ جب نعمتیں چھن جاتی ہیں تو یہ تنگ نظر انسان خیال کرتا ہے اب ان نعمتوں نے آنا ہی نہیں اور جب نعمتیں وافر ہو جاتی ہیں تو خیال کرتا ہے ان نعمتوں نے جانا ہی نہیں۔ اس کی کوتاہ نظر صرف حال حاضر پر لگی رہتی ہے۔ اسی کو ساری دنیا تصور کرتا ہے۔ نہ ان نعمتوں کے سرچشمہ پر نظر ہے کہ مایوس نہ ہو، نہ ان نعمتوں کے حقیقی مالک کی معرفت ہے کہ وہ ان نعمتوں کو دیکھ کر اکڑ نہ جائے۔

۳۔ اِلَّا الَّذِيْنَ صَبَرُوْا: البتہ صبر اور عمل صالح بجا لانے والے افراد کی جہاں بینی اس سے مختلف ہے۔ وہ ان نعمتوں کے حقیقی مالک کی معرفت رکھتے ہیں۔ جب نعمت چھن جاتی ہے تو ان کا موقف یہ ہوتا ہے کہ اس کا حقیقی مالک تو اللہ ہی ہے۔ یہ چند روز کے لیے میرے پاس امانت تھی اور جتنی دیر میرے پاس رہی یہ اس مالک حقیقی کی مہربانی اور اس کا کرم تھا۔جب بد حالی کے بعد نعمتیں وافر ہو جاتی ہیں تو اس کا موقف یہ ہوتا ہے کہ مالک حقیقی نے مجھے اس امانت کا اہل سمجھا ہے۔ جتنی دیر میرے پاس رہے یہ اس کی رحمت و شفقت ہے اور ہر حالت کے لیے اپنے آپ کو آمادہ اور تیار رکھتا ہے۔

اس آیت میں قریش کے برائی میں بدمست افراد کی طرف اشارہ ہے کہ تمہارے دن گنے جا چکے ہیں۔

اہم نکات

۱۔ مؤمن کو چاہیے کہ اچھے دنوں میں برے دنوں کے لیے آمادہ رہے اور برے دنوں میں رحمت الٰہی کا منتظر رہے۔

۲۔ گردش ایام سے محفوظ رہنے کا بہترین وسیلہ صبر ہے۔

۳۔ تعیش انسان سے قوت مقاومت سلب کرتی ہے۔


آیات 9 - 11