نامساعد حالات میں بار رسالت کی سنگینی


فَلَعَلَّکَ تَارِکٌۢ بَعۡضَ مَا یُوۡحٰۤی اِلَیۡکَ وَ ضَآئِقٌۢ بِہٖ صَدۡرُکَ اَنۡ یَّقُوۡلُوۡا لَوۡ لَاۤ اُنۡزِلَ عَلَیۡہِ کَنۡزٌ اَوۡ جَآءَ مَعَہٗ مَلَکٌ ؕ اِنَّمَاۤ اَنۡتَ نَذِیۡرٌ ؕ وَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ وَّکِیۡلٌ ﴿ؕ۱۲﴾

۱۲۔ (اے رسول) آپ کی طرف جو وحی کی گئی ہے شاید آپ اس کا کچھ حصہ چھوڑنے والے ہیں اور ان کی اس بات پر دل تنگ ہو رہے ہیں کہ اس پر خزانہ کیوں نازل نہیں ہوا یا اس کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہیں آیا؟ آپ تو صرف تنبیہ کرنے والے ہیں اور اللہ ہر چیز کا ذمہ دار ہے۔

12۔ نہایت نامساعد حالات میں بار رسالت کی سنگینی کی طرف اشارہ ہے کہ لوگوں کے راہ راست پر آنے کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے بلکہ ان کے عناد اور ہٹ دھرمی میں اضافہ ہوتا ہے۔ ایسے میں یہ خیال دل میں آ سکتا ہے کہ وحی کی باتیں سنانے کا کیا فائدہ۔ آیت میں بتایا گیا ہے کہ ابلاغ وحی کا مطلب صرف ایمان لے آنا نہیں ہے بلکہ صرف تبلیغ سے بھی کچھ حکمتیں وابستہ ہیں یا آپ صرف تنبیہ و تبلیغ کریں اور بس۔ انہیں گرفت میں لینا ہمارا کام ہے۔ اس آیت سے یہ بات ہرگز ثابت نہیں ہوتی کہ رسول ﷺ ترک تبلیغ کا قصد رکھتے تھے۔