آیت 12
 

فَلَعَلَّکَ تَارِکٌۢ بَعۡضَ مَا یُوۡحٰۤی اِلَیۡکَ وَ ضَآئِقٌۢ بِہٖ صَدۡرُکَ اَنۡ یَّقُوۡلُوۡا لَوۡ لَاۤ اُنۡزِلَ عَلَیۡہِ کَنۡزٌ اَوۡ جَآءَ مَعَہٗ مَلَکٌ ؕ اِنَّمَاۤ اَنۡتَ نَذِیۡرٌ ؕ وَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ وَّکِیۡلٌ ﴿ؕ۱۲﴾

۱۲۔ (اے رسول) آپ کی طرف جو وحی کی گئی ہے شاید آپ اس کا کچھ حصہ چھوڑنے والے ہیں اور ان کی اس بات پر دل تنگ ہو رہے ہیں کہ اس پر خزانہ کیوں نازل نہیں ہوا یا اس کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہیں آیا؟ آپ تو صرف تنبیہ کرنے والے ہیں اور اللہ ہر چیز کا ذمہ دار ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ فَلَعَلَّکَ تَارِکٌۢ: نہایت نامساعد حالات میں بار رسالت کی سنگینی کی طرف اشارہ ہے کہ حالات ایسے ہیں کہ آپ ؐکے لیے نہایت دشوار ہے کہ وحی کی باتیں بلا فاصلہ ایسے لوگوں تک پہنچا دیں جن کے راہ راست پر آنے کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے بلکہ ان کے عناد اور ہٹ دھرمی میں اضافہ ہو گیا ہے۔

۲۔ لَوۡ لَاۤ اُنۡزِلَ عَلَیۡہِ کَنۡزٌ: اب یہ لوگ کہنے لگے ہیں کہ اگر تو اللہ کا رسول ہے تو تجھ پر کوئی خزانہ کیوں نازل نہیں ہوتا یا کوئی فرشتہ تمہارے ساتھ کیوں نہیں آتا؟ ایسے حالات میں یہ خیال دل میں آ سکتا ہے کہ انہیں وحی کی باتیں سنانے کا کیا فائدہ ہو گا۔ ان لوگوں نے ایمان لانا نہیں ہے۔ آیت میں اس احتمال کی نفی کی ہے کہ ابلاغ وحی کا مطلب صرف یہ نہیں کہ وہ ایمان لے آئیں بلکہ صرف تبلیغ سے بھی کچھ حکمتیں وابستہ ہیں۔ آپؐ صرف تنبیہ و تبلیغ کریں بس۔ ان لوگوں کو گرفت میں لینا ہمارا کام ہے۔

اس آیت سے یہ بات ہرگز ثابت نہیں ہوتی کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ترک تبلیغ یا تاخیر کا قصد رکھتے تھے۔ چونکہ لَعَلَّ وہاں استعمال ہوتا ہے جہاں توقع ہو۔ کسی چیز کی توقع سے اس کا وقوع ثابت نہیں ہوتا بلکہ اظہار توقع اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ تبلیغ احکام پر زیادہ توجہ دے۔

۳۔ اِنَّمَاۤ اَنۡتَ نَذِیۡرٌ: آپ کے ذمے واضح لفظوں میں لوگوں کی تنبیہ کرنا ہے۔ خزانہ دار ہونا یا فرشتے کا ساتھ ہونا آپؐ کی ذمہ داری نہیں ہے۔ نبوت کے لیے مطلوبہ معجزہ و دلیل پیش ہوچکی ہے، اس کے بعد بھی وہ نہیں مانتے ہیں تو منوانا آپؐ کی ذمہ داری نہیں ہے۔ حق کا پہنچانا آپ کے ذمہ داری ہے۔

۴۔ وَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ وَّکِیۡلٌ: ہر چیز کی ذمے داری اللہ تعالیٰ سے مربوط ہے۔ اللہ آپؐ کا ذمے دار ہے۔ کسی سے خوف کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ کیا کہے گا؟

اہم نکات

۱۔ تبلیغ وحی میں کسی قسم کا تساہل یا تاخیر جائز نہیں ہے: فَلَعَلَّکَ تَارِکٌۢ ۔۔۔۔

۲۔ مادی انسان دولت کو ہی تمام قدروں کا معیار قرار دیتا ہے: لَوۡ لَاۤ اُنۡزِلَ عَلَیۡہِ کَنۡزٌ ۔۔۔۔


آیت 12