کائناتی نظام کا اطلاق


مَنۡ کَانَ یُرِیۡدُ الۡحَیٰوۃَ الدُّنۡیَا وَ زِیۡنَتَہَا نُوَفِّ اِلَیۡہِمۡ اَعۡمَالَہُمۡ فِیۡہَا وَ ہُمۡ فِیۡہَا لَا یُبۡخَسُوۡنَ﴿۱۵﴾

۱۵۔ جو دنیوی زندگی اور اس کی زینت کے طالب ہوتے ہیں ان کی محنتوں کا معاوضہ ہم انہیں دنیا ہی میں دے دیتے ہیں اور ان کے لیے اس میں کمی نہیں کی جائے گی۔

15۔ اس روئے زمین پر اللہ تعالیٰ کا ایک مادی و تکوینی نظام ہے جسے نظامِ علل و اسباب کہتے ہیں۔ اس نظام کے تحت جو بھی ان علل و اسباب کو بروئے کار لائے گا، وہ نتیجہ اخذ کرے گا۔ اس میں مومن و کافر کا کوئی فرق نہیں۔ فرق یہ ہے کہ کافر کا نصب العین صرف دنیا ہے، اس لیے کافر کو اس کی محنتوں کا نتیجہ اسی دنیا میں دے دیا جاتا ہے۔ وَ ہُمۡ فِیۡہَا لَا یُبۡخَسُوۡنَ ۔ اللہ کے مادی و تکوینی قانون میں کسی کی حق تلفی نہیں کی جاتی، البتہ آخرت میں انہیں کچھ نہیں ملے گا، خواہ کافر کے عمل میں اگرچہ حسن ہو لیکن عمل کنندہ میں حسن نہیں ہے۔ یہ اسی طرح ہے کہ ایک بدکار عورت اپنی نا جائز کمائی سے یتیم پالتی ہو۔ اسی طرح ایک منکر خدا جو خدا کے وجود کا معترف نہیں یا اس کے ساتھ شرک کر کے مقام الہٰیت میں جسارت کا ارتکاب کرتا ہے نیز وہ اپنا کام اللہ کے لیے کرتا ہی نہیں تاکہ اللہ سے اسے کوئی صلہ مل جائے۔ اس میں وہ ریاکار بھی شامل ہے جو اپنے اعمال دنیاوی مفاد کے لیے انجام دیتا ہے، وہ نیک اعمال انجام دیتا ہے لیکن اس کی نمازوں، روزوں اور خدمات کا نصب العین اللہ نہیں، دنیاوی مفادات ہیں، اس کے اعمال حبط ہو جاتے ہیں اور سارا کیا دھرا ناکارہ ہو جاتا ہے۔