بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

وَ الضُّحٰی ۙ﴿۱﴾

۱۔ قسم ہے روز روشن کی،

وَ الَّیۡلِ اِذَا سَجٰی ۙ﴿۲﴾

۲۔ اور رات کی جب (اس کی تاریکی) چھا جائے،

مَا وَدَّعَکَ رَبُّکَ وَ مَا قَلٰی ؕ﴿۳﴾

۳۔ آپ کے رب نے آپ کو نہیں چھوڑا اور نہ ہی وہ ناراض ہوا،

3۔ روایت میں ہے کہ کچھ مدت کے لیے نزول وحی کا سلسلہ رک گیا تھا۔ اس کے بعد یہ سورہ نازل ہوا۔ نظام قرآن اور مصلحت وقت کے مطابق یہ وقفہ ضروری تھا۔ اس وقفہ کے بعد یہ مژدہ سنایا۔

وَ لَلۡاٰخِرَۃُ خَیۡرٌ لَّکَ مِنَ الۡاُوۡلٰی ؕ﴿۴﴾

۴۔ اور آخرت آپ کے لیے دنیا سے کہیں بہتر ہے۔

وَ لَسَوۡفَ یُعۡطِیۡکَ رَبُّکَ فَتَرۡضٰی ؕ﴿۵﴾

۵۔ اور عنقریب آپ کا رب آپ کو اتنا عطا فرمائے گا کہ آپ راضی ہو جائیں گے۔

5۔ کہ آپ کا رب آپ کو بخشش و عطا سے نوازے گا کہ آپ خوش ہو جائیں۔ عطائے رب کا دنیاوی وعدہ تو دنیا میں چشم جہاں نے پورا ہوتے ہوئے دیکھ لیا اور آخرت میں احادیث کے مطابق شفاعت ہے۔ الدر المنثور 6: 611 میں آیا ہے: رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے گھر داخل ہوئے تو دیکھا فاطمہ (س) چکی سے آٹا پیس رہی ہیں اور اونٹ کے بالوں کی ایک چادر زیب تن ہے۔ جب رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نظر پڑی تو آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: یا فاطمۃ تعجلی فتجرعی مرارۃ الدنیا لنعیم الآخرۃ غداً۔ فانزل اللہ وَلَسَوْفَ يُعْطِيْكَ رَبُّكَ فَتَرْضٰى ۔ اے فاطمہ (س) جلدی کر اور دنیا کی تلخی چکھ لے کل آخرت کی نعمتوں کے لیے، تو اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ الدرالمنثور کے اسی صفحہ پر حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کا یہ فرمان منقول ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا: قرآن میں سب سے امید افزا آیت یہی ہے۔

اَلَمۡ یَجِدۡکَ یَتِیۡمًا فَاٰوٰی ۪﴿۶﴾

۶۔ کیا اس نے آپ کو یتیم نہیں پایا پھر پناہ دی؟

6۔ یہ پناہ چھ سال تک آپ کی والدہ ماجدہ، آٹھ سال تک آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جد امجد اور اس کے بعد حضرت ابوطالب علیہ السلام کے ذریعے فراہم فرمائی۔

وَ وَجَدَکَ ضَآلًّا فَہَدٰی ۪﴿۷﴾

۷۔ اور اس نے آپ کو گمنام پایا تو راستہ دکھایا،

ضَآلًّا صرف گمراہی کے لیے استعمال نہیں ہوتا، بلکہ ناواقف اور غافل کے معنوں میں بھی آتا ہے۔ لَا یَضِلُّ رَبِّیۡ وَ لَا یَنۡسَی ۔ (طٰہٰ: 52) میرا رب نہ غافل ہوتا ہے، نہ بھولتا ہے۔ اس طرح آیت کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ اسلام کے اس عظیم انقلاب کو کامیاب بنانے کے لیے ہم نے آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو راستہ دکھایا۔

وَ وَجَدَکَ عَآئِلًا فَاَغۡنٰی ؕ﴿۸﴾

۸۔ اور آپ کو تنگ دست پایا تو مالدار کر دیا۔

فَاَمَّا الۡیَتِیۡمَ فَلَا تَقۡہَرۡ ؕ﴿۹﴾

۹۔ لہٰذا آپ یتیم کی توہین نہ کریں،

وَ اَمَّا السَّآئِلَ فَلَا تَنۡہَرۡ ﴿ؕ۱۰﴾

۱۰۔ اور سائل کو جھڑکی نہ دیں،

10۔ آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خود یتیمی کی تلخی اور محرومیت کے نامساعد حالات سے دو چار رہ چکے ہیں، لہٰذا آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کسی یتیم کی اہانت نہ کریں اور کسی سائل کو جھڑکی نہ دیں۔ خطاب اگرچہ رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ہے، لیکن حکم سب کے لیے عام ہے۔

وَ اَمَّا بِنِعۡمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثۡ﴿٪۱۱﴾

۱۱۔ اور اپنے رب کی نعمت کو بیان کریں۔