وَ مَا یُغۡنِیۡ عَنۡہُ مَا لُہٗۤ اِذَا تَرَدّٰی ﴿ؕ۱۱﴾

۱۱۔ اور جب وہ سقوط کرے گا تو اس کا مال اس وقت اس کے کام نہ آئے گا۔

اِنَّ عَلَیۡنَا لَلۡہُدٰی ﴿۫ۖ۱۲﴾

۱۲۔راستہ دکھانا یقینا ہماری ذمے داری ہے

12۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے کائنات کی تخلیق سے پہلے ہادیان برحق کا اہتمام کیا ہے۔ اول ما خلق اللہ نوری ۔ (حدیث۔ بحار الانوار 1: 97)

وَ اِنَّ لَنَا لَلۡاٰخِرَۃَ وَ الۡاُوۡلٰی﴿۱۳﴾

۱۳۔ اور دنیا اور آخرت کے یقینا ہم مالک ہیں۔

13۔ ہمارے ہاں سے طالب دنیا کو دنیا اور طالب آخرت کو آخرت مل جاتی ہے۔دیگر آیات قرآنی سے یہ قاعدہ ہاتھ آتا ہے کہ طالب آخرت کے لیے دنیا بھی مل سکتی ہے، لیکن طالب دنیا کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہ ہو گا۔

فَاَنۡذَرۡتُکُمۡ نَارًا تَلَظّٰی ﴿ۚ۱۴﴾

۱۴۔ پس میں نے تمہیں بھڑکتی آگ سے متنبہ کر دیا۔

لَا یَصۡلٰىہَاۤ اِلَّا الۡاَشۡقَی ﴿ۙ۱۵﴾

۱۵۔ اس میں سب سے زیادہ شقی شخص ہی تپے گا،

الَّذِیۡ کَذَّبَ وَ تَوَلّٰی ﴿ؕ۱۶﴾

۱۶۔ جس نے تکذیب کی اور منہ موڑ لیا ہو۔

وَ سَیُجَنَّبُہَا الۡاَتۡقَی ﴿ۙ۱۷﴾

۱۷۔ اور نہایت پرہیزگار کو اس (آگ) سے بچا لیا جائے گا،

الَّذِیۡ یُؤۡتِیۡ مَالَہٗ یَتَزَکّٰی ﴿ۚ۱۸﴾

۱۸۔ جو اپنا مال پاکیزگی کے لیے دیتا ہے۔

وَ مَا لِاَحَدٍ عِنۡدَہٗ مِنۡ نِّعۡمَۃٍ تُجۡزٰۤی ﴿ۙ۱۹﴾

۱۹۔ اور اس پر کسی کا احسان نہیں جس کا وہ بدلہ اتارنا چاہتا ہو۔

اِلَّا ابۡتِغَآءَ وَجۡہِ رَبِّہِ الۡاَعۡلٰی ﴿ۚ۲۰﴾

۲۰۔ وہ تو اپنے رب اعلیٰ کی رضا جوئی کے لیے ایسا کرتا ہے۔

20۔ یہ شخص جو صرف اپنے رب کی رضا جوئی کے لیے اپنا مال خرچ کرتا ہے۔ اسے اللہ تعالیٰ اس قدر اکرام و انعام سے نوازے گا کہ وہ خوش ہو جائے گا۔

وَ لَسَوۡفَ یَرۡضٰی﴿٪۲۱﴾

۲۱۔ اور عنقریب وہ راضی ہو جائے گا۔