وَ لَسَوۡفَ یُعۡطِیۡکَ رَبُّکَ فَتَرۡضٰی ؕ﴿۵﴾

۵۔ اور عنقریب آپ کا رب آپ کو اتنا عطا فرمائے گا کہ آپ راضی ہو جائیں گے۔

5۔ کہ آپ کا رب آپ کو بخشش و عطا سے نوازے گا کہ آپ خوش ہو جائیں۔ عطائے رب کا دنیاوی وعدہ تو دنیا میں چشم جہاں نے پورا ہوتے ہوئے دیکھ لیا اور آخرت میں احادیث کے مطابق شفاعت ہے۔ الدر المنثور 6: 611 میں آیا ہے: رسول اللہ ﷺ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے گھر داخل ہوئے تو دیکھا فاطمہ (س) چکی سے آٹا پیس رہی ہیں اور اونٹ کے بالوں کی ایک چادر زیب تن ہے۔ جب رسول اللہ ﷺ کی نظر پڑی تو آپ ﷺ نے فرمایا: یا فاطمۃ تعجلی فتجرعی مرارۃ الدنیا لنعیم الآخرۃ غداً۔ فانزل اللہ وَلَسَوْفَ يُعْطِيْكَ رَبُّكَ فَتَرْضٰى ۔ اے فاطمہ (س) جلدی کر اور دنیا کی تلخی چکھ لے کل آخرت کی نعمتوں کے لیے، تو اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ الدرالمنثور کے اسی صفحہ پر حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کا یہ فرمان منقول ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا: قرآن میں سب سے امید افزا آیت یہی ہے۔