آیات 1 - 3
 

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

سورۃ الضحی

سورۃ کا نام پہلی آیت میں مذکور لفظ وَ الضُّحٰی سے ماخوذ ہے

یہسورۃ مبارکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کے ابتدائی دور میں نازل ہوئی۔ ابھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رسالت کا باقاعدہ اعلان نہیں فرمایا تھا۔ اس سورۃ میں حکم آیا: وَ اَمَّا بِنِعۡمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثۡ اور اپنے رب کی نعمت یعنی نبوت بیان کریں۔

ابتدائے بعثت میں نزول وحی میں ایک وقفہ آیا جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پریشان ہوئے۔ تسلی پر مشتمل آیات شروع میں ہیں، اس کے بعد ایک بشارت دی گئی ہے کہ آپ غمگین نہ ہوں۔ اللہ آپ کو اتنی عنایات، دنیا کی کامیابیوں اور آخرت کے درجات سے نوازے گا کہ آپ خوش ہو جائیں۔ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خوشی کی حد تک کامیابی کی پیشنگوئی ان حالات میں بھی نہایت اہمیت کی حامل ہے جن میں کامیابی کے آثار دور دور تک نظر نہیں آرہے تھے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَ الضُّحٰی ۙ﴿۱﴾

۱۔ قسم ہے روز روشن کی،

وَ الَّیۡلِ اِذَا سَجٰی ۙ﴿۲﴾

۲۔ اور رات کی جب (اس کی تاریکی) چھا جائے،

مَا وَدَّعَکَ رَبُّکَ وَ مَا قَلٰی ؕ﴿۳﴾

۳۔ آپ کے رب نے آپ کو نہیں چھوڑا اور نہ ہی وہ ناراض ہوا،

تشریح کلمات

سَجٰی:

( س ج و ) السجود: پرسکون ہونے کے معنوں میں ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ اللہ تعالیٰ دن کی روشنی اور رات کی تاریکی کی قسم کھا کر اس بات کی اہمیت کی طرف اشارہ فرما رہا ہے جو آگے جواب قسم میں بیان ہونے والی ہے۔ چونکہ یہ آیات ایک مختصر مدت کے لیے وحی کے انقطاع سے مربوط ہیں، اس لیے ممکن ہے یہ بتانا مقصود ہو کہ دن کی روشنی اور رات کے سکون کی قسم وحی میں جو تاخیر ہوئی ہے اس میں نہ وحی کی روشنی سلب کرنا مقصود ہے نہ سکون۔

۲۔ مَا وَدَّعَکَ: روایت ہے کہ کچھ مدت کے لیے نزول وحی کا سلسلہ رک گیا تھا۔ اس کے بعد یہ سورۃ نازل ہوئی کہ نظام قرآن اور مصلحت وقت کے تحت یہ وقفہ ضروری تھا۔ یہ وقفہ اس لیے نہ تھا کہ اللہ نے آپ کو چھوڑ دیا ہے یا کسی قسم کی ناراضگی ہوئی ہے۔


آیات 1 - 3