بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُقَدِّمُوۡا بَیۡنَ یَدَیِ اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ﴿۱﴾

۱۔ اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو، یقینا اللہ خوب سننے والا، جاننے والا ہے۔

1۔ رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خداوند عالم کی طرف سے قانون دہندہ ہے، لہٰذا رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے آگے بڑھنے کا مطلب مداخلت فی الدین ہے۔ یعنی اللہ کی حاکمیت میں مداخلت ہے۔ لہٰذا ایمان کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ اپنے اجتہاد پر اللہ اور رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حکم کو مقدم رکھا جائے اور حکم رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خلاف فتویٰ صادر کرنے کا یہ جواز پیش نہ کیا جائے کہ دو مجتہدین میں اختلاف کوئی نئی بات نہیں ہے۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَرۡفَعُوۡۤا اَصۡوَاتَکُمۡ فَوۡقَ صَوۡتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجۡہَرُوۡا لَہٗ بِالۡقَوۡلِ کَجَہۡرِ بَعۡضِکُمۡ لِبَعۡضٍ اَنۡ تَحۡبَطَ اَعۡمَالُکُمۡ وَ اَنۡتُمۡ لَا تَشۡعُرُوۡنَ﴿۲﴾

۲۔ اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے بلند نہ کرو اور نبی کے ساتھ اونچی آواز سے بات نہ کرو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے اونچی آواز میں بات کرتے ہو کہیں تمہارے اعمال حبط ہو جائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔

2۔ یہ صرف آداب کا حصہ ہی نہیں، بلکہ ایک طرز عمل ہے، جس کا سرا رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت پر ایمان کی نوعیت سے ملتا ہے کہ اللہ کے نزدیک رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ عظمت ہے کہ ان کے سامنے اونچی آواز سے بات کرنے سے عمل حبط ہو جاتا ہے۔ جبکہ بعض لوگوں نے رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مجلس میں بیٹھ کر اس قدر شور مچایا کہ رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قومواعنی کہنا پڑا۔ چونکہ رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کبھی ذاتی حیثیت میں بات نہیں کرتے، بلکہ جو بھی بات کرتے ہیں وہ اللہ کی طرف سے ہوتی ہے۔ لہٰذا رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ بے اعتنائی، رسالت کے ساتھ بے اعتنائی ہے اور رسالت کے ساتھ بے اعتنائی خود اللہ تعالیٰ کے ساتھ بے اعتنائی ہے۔

اِنَّ الَّذِیۡنَ یَغُضُّوۡنَ اَصۡوَاتَہُمۡ عِنۡدَ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ امۡتَحَنَ اللّٰہُ قُلُوۡبَہُمۡ لِلتَّقۡوٰی ؕ لَہُمۡ مَّغۡفِرَۃٌ وَّ اَجۡرٌ عَظِیۡمٌ﴿۳﴾

۳۔ جو لوگ اللہ کے رسول کے سامنے دھیمی آواز میں بات کرتے ہیں بلاشبہ یہی وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ نے تقویٰ کے لیے آزما لیے ہیں ان کے لیے مغفرت اور اجر عظیم ہے۔

اِنَّ الَّذِیۡنَ یُنَادُوۡنَکَ مِنۡ وَّرَآءِ الۡحُجُرٰتِ اَکۡثَرُہُمۡ لَا یَعۡقِلُوۡنَ﴿۴﴾

۴۔ جو لوگ آپ کو حجروں کے پیچھے سے پکارتے ہیں بلاشبہ ان میں سے اکثر عقل نہیں رکھتے ۔

4۔ حالانکہ یہ حرکت بنی تمیم کے ستر افراد پر مشتمل ایک وفد سے سرزد ہوئی، جن کے بارے میں یہ حدیث بیان کی جاتی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: لا ازال احب بنی تمیم لثلاث۔۔۔ میں تین باتوں کی وجہ سے بنی تمیم سے محبت کرتا ہوں۔۔۔۔

وَ لَوۡ اَنَّہُمۡ صَبَرُوۡا حَتّٰی تَخۡرُجَ اِلَیۡہِمۡ لَکَانَ خَیۡرًا لَّہُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿۵﴾

۵۔ اور اگر یہ لوگ صبر کرتے یہاں تک کہ آپ ان کی طرف نکل آتے تو ان کے لیے بہتر تھا اور اللہ بڑا مغفرت کرنے والا، خوب رحم کرنے والا ہے۔

5۔ کچھ غیر مہذب اور مدینے کے اطراف و جوانب سے حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کے لیے آنے والے لوگ ازواج مطہرات کے حجروں کے باہر سے حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو یا محمد اخرج الینا (اے محمد باہر نکلیں) کہ کر پکارتے تھے۔ جس سے رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اذیت ہوتی تھی۔ ایسے ناشائستہ لوگوں کی سرزنش کے لیے یہ آیت نازل ہوئی۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ جَآءَکُمۡ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوۡۤا اَنۡ تُصِیۡبُوۡا قَوۡمًۢا بِجَہَالَۃٍ فَتُصۡبِحُوۡا عَلٰی مَا فَعَلۡتُمۡ نٰدِمِیۡنَ﴿۶﴾

۶۔ اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تم تحقیق کر لیا کرو، کہیں نادانی میں تم کسی قوم کو نقصان پہنچا دو پھر تمہیں اپنے کیے پر نادم ہونا پڑے۔

6۔ رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ولید بن عتبہ کو قبیلہ بنی مصطلق سے زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا۔ یہ ان کے نزدیک پہنچا تو لوگ نمائندہ رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے استقبال کے لیے نکلے۔ ولید ڈر گیا اور واپس بھاگ آیا۔ (کیونکہ زمانہ جاہلیت میں ولید اور ان کے درمیان دشمنی تھی) ولید نے رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا: وہ زکوٰۃ دینے سے انکار کرتے ہیں۔ رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم رنجیدہ ہوئے اور آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے ساتھ جنگ کرنے کا ارادہ کیا اور بنی مصطلق سے فرمایا: لتنتھن اولا بعثن الیکم رجلاً کنفسی یقاتل مقاتلتکم و لیسبّی ذراریکم، ثم ضرب بیدہ علی کتف علی رضی اللہ عنہ ۔ (الکشاف 4: 360) تم باز آ جاؤ، ورنہ میں ایسے فرد کو تمہاری طرف روانہ کروں گا جو میرے نفس کی طرح ہے۔ جو تمہارے لڑنے والوں سے لڑے گا اور تمہارے بچوں کو قیدی بنائے گا۔ یہ کہکر (حضرت) علیؓ کے کاندھوں پر ہاتھ رکھا۔ تب یہ آیت نازل ہوئی۔ ولید کو جو رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نمائندگی بھی کرتا تھا، قرآن نے فاسق کہا ہے، تو کیا ہم اس کو بھی وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗ میں شامل سمجھیں گے؟ یہی ولید ہے جو حضرت عثمان کی طرف سے کوفے کا گورنر تھا اور اس دوران ایک دفعہ اس نے صبح کی نماز نشے کی حالت میں چار رکعت پڑھا دی اور لوگوں سے کہا: مزید اضافہ کروں؟ اور محراب میں شراب کی قے کی!!

وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ فِیۡکُمۡ رَسُوۡلَ اللّٰہِ ؕ لَوۡ یُطِیۡعُکُمۡ فِیۡ کَثِیۡرٍ مِّنَ الۡاَمۡرِ لَعَنِتُّمۡ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ اِلَیۡکُمُ الۡاِیۡمَانَ وَ زَیَّنَہٗ فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ وَ کَرَّہَ اِلَیۡکُمُ الۡکُفۡرَ وَ الۡفُسُوۡقَ وَ الۡعِصۡیَانَ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الرّٰشِدُوۡنَ ۙ﴿۷﴾

۷۔ اور تمہیں علم ہونا چاہیے کہ اللہ کے رسول تمہارے درمیان موجود ہیں، اگر بہت سے معاملات میں وہ تمہاری بات مان لیں تو تم خود مشکل میں پڑ جاؤ گے لیکن اللہ تعالیٰ نے ایمان کو تمہارے لیے محبوب بنا دیا اور اسے تمہارے دلوں میں مزین فرمایا اور کفر اور فسق اور نافرمانی کو تمہارے نزدیک ناپسندیدہ بنا دیا، یہی لوگ راہ راست پر ہیں،

7۔ کچھ اصحاب کو اس بات پر اصرار تھا کہ بنی مصطلق کے خلاف جنگ کرنا چاہیے، مگر رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تأمل سے کام لے رہے تھے اور ان کا کہنا نہیں مان رہے تھے۔

فَضۡلًا مِّنَ اللّٰہِ وَ نِعۡمَۃً ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ ﴿۸﴾

۸۔ اللہ کی طرف سے فضل اور نعمت کے طور پر اور اللہ خوب جاننے والا، حکمت والا ہے۔

وَ اِنۡ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اقۡتَتَلُوۡا فَاَصۡلِحُوۡا بَیۡنَہُمَا ۚ فَاِنۡۢ بَغَتۡ اِحۡدٰىہُمَا عَلَی الۡاُخۡرٰی فَقَاتِلُوا الَّتِیۡ تَبۡغِیۡ حَتّٰی تَفِیۡٓءَ اِلٰۤی اَمۡرِ اللّٰہِ ۚ فَاِنۡ فَآءَتۡ فَاَصۡلِحُوۡا بَیۡنَہُمَا بِالۡعَدۡلِ وَ اَقۡسِطُوۡا ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُقۡسِطِیۡنَ﴿۹﴾

۹۔ اور اگر مومنین کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کرا دو، پھر اگر ان دونوں میں سے ایک دوسرے پر زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے، پھر اگر وہ لوٹ آئے تو ان کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کرا دو اور انصاف کرو، یقینا اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔

9۔ خطاب ان لوگوں سے ہے جو اس لڑائی میں فریق نہیں۔ ان پر فرض ہے کہ وہ اس لڑائی میں تماش بین نہ بنیں، بلکہ مصالحت اور لڑائی بند کرانے کی کوشش کریں۔ اگر وہ اس کوشش میں ناکام ہو گئے تو ان میں سے زیادتی کرنے والے کے خلاف لڑیں اور جو فریق حق پر ہو اس کا ساتھ دیں۔ باغی کے خلاف لڑائی کا چونکہ اللہ نے حکم دیا ہے، لہٰذا یہ بھی جہاد فی سبیل اللہ ہے۔

اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ اِخۡوَۃٌ فَاَصۡلِحُوۡا بَیۡنَ اَخَوَیۡکُمۡ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ﴿٪۱۰﴾ ۞ؓ

۱۰۔ مومنین تو بس آپس میں بھائی بھائی ہیں، لہٰذا تم لوگ اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کرا دو اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

10۔ ایمان کا رشتہ ایک آفاقی رشتہ ہے۔اس آفاقی رشتے، اخوت سے منسلک ہونے سے ایک عالمی برادری قائم ہو جاتی ہے۔ اگر مسلمان اس عالمی برادری سے فائدہ اٹھاتے تو کرئہ ارض کی تقدیر کچھ اور ہوتی۔ یہ عالمگیریت کا اسلامی تصور ہے جو ایمان پر قائم ہے۔