آیت 10
 

اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ اِخۡوَۃٌ فَاَصۡلِحُوۡا بَیۡنَ اَخَوَیۡکُمۡ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ﴿٪۱۰﴾

۱۰۔ مومنین تو بس آپس میں بھائی بھائی ہیں، لہٰذا تم لوگ اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کرا دو اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

تفسیر آیات

۱۔ اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ اِخۡوَۃٌ: ایمان کا رشتہ ایک آفاقی رشتہ ہے۔ اس آفاقی رشتہ اخوت سے منسلک ہونے سے ایک عالمی برادری قائم ہو جاتی ہے۔ اگر مسلمان اس عالمی برادری سے فائدہ اٹھاتے تو کرۂ ارض کی تقدیر کچھ اور ہوتی۔ یہ عالم گیریت (universalism) کا اسلامی تصور ہے جو ایمان پر قائم ہے۔

اسلامی اخوت کا تصور وہ نہیں ہے جسے دوسرے لوگ بھی عالمی برادری وغیرہ کے نام سے یاد کرتے ہیں بلکہ یہاں اخوت کا صحیح معنوں میں مطلب دو انسانوں کے درمیان موجود مضبوط و نزدیک ترین رشتہ ہے۔ یہ صرف ایک تعبیر یا لفظی تعارف نہیں ہے بلکہ یہ رشتہ ایک حقیقت ہے۔ حدیث میں ہے:

۔۔۔ لِاَنَّ الْمُؤْمِنُ اَخُ الْمُؤْمِنِ لِاَبِیہِ وَ اُمِّہِ۔۔۔۔ (مستدرک الوسائل ۸۵: ۲۳۱)

چونکہ مومن دوسرے مؤمن کا ماں باپ دونوں طرف سے بھائی ہے۔

اس حقیقت پر بہت سے آثار و نتائج مترتب ہوتے ہیں اور مومن بھائی کے ذمے دوسرے مومن بھائی کے وہ حقوق ہیں جنہیں ائمہ علیہم السلام بیان کرنے سے اس لیے تأمل کرتے تھے کہ ان حقوق کا علم ہو جانے کے بعد کہیں ادا نہ ہوں تو ذمہ داری آ جاتی ہے۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

مَا عُبِدَ اللہُ بِشَیْئٍ اَفْضَلَ مِنْ اَدَائِ حَقِّ الْمُؤْمِنِ۔ (الکافی ۲: ۱۷۰)

مومن کا حق ادا کرنے سے بہتر کسی اور چیز سے اللہ کی بندگی نہیں کی گئی۔

متعدد روایات میں مومن برادر کے حقوق کا ذکر ہوا ہے۔ ان میں سے چند ایک کا ذکر کرتے ہیں:

i۔ اسے بھوکا نہ رکھنا۔

ii۔ اسے لباس کی ضرورت ہو تو لباس فراہم کرنا۔

iii۔ اس کی پریشانی دور کرنا۔

iv۔ اس کا قرض ادا کرنا۔

v۔ فوت ہونے کی صورت میں اس کے بال بچوں کی سرپرستی کرنا۔ (الکافی ۲: ۱۶۹)

vi۔ ظالم کے خلاف اس کی مدد کرنا ۔

vii۔ اس کے غائب ہونے کی صورت میں مسلمانوں میں تقسیم ہونے والی چیزیں اس کی طرف

سے وصول کرنا۔

viii۔ اس کی مدد نہ چھوڑنا۔

ix۔ اس کے لیے اف نہ کرنا۔ (الکافی ۲: ۱۷۱)

x۔ مریض ہو تو عیادت کرنا۔

xi۔ اس کی دعوت قبول کرنا۔

xii۔ اسے چھینک آنے کی صورت میں دعا دینا۔ (الکافی ۲: ۶۵۴)

xiii۔ اس کی ضرورت کو اپنی ضرورت پر ترجیح دینا۔ (مستدرک الوسائل ۷: ۲۱۲)

iv۔ بیٹھنے کے لیے اسے جگہ دینا۔

xv۔ وہ آپ سے بات کر رہا ہو تو اس کی طرف توجہ دینا۔

xvi۔ جب اٹھ کر جانا چاہے، خدا حافظی کرنا۔ (مستدرک الوسائل ۸: ۳۲۰)

xvii۔ اگر آپ کے پاس خادم ہو، اس کے پاس نہ ہو تو اپنا خادم اس کی خدمت گزاری کے لیے بھیجنا۔ (مستدرک الوسائل۹:۴۸)

۲۔ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ: مصالحت کی ذمہ داری نبھاتے ہوئے تقویٰ کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے۔ کسی فریق کی حق تلفی نہ ہو۔ نہ کسی فریق کی جانبداری ہو۔ عدل و انصاف کے علاوہ دیگر امور کا اس میں دخل نہ ہو۔


آیت 10