آیت 2
 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَرۡفَعُوۡۤا اَصۡوَاتَکُمۡ فَوۡقَ صَوۡتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجۡہَرُوۡا لَہٗ بِالۡقَوۡلِ کَجَہۡرِ بَعۡضِکُمۡ لِبَعۡضٍ اَنۡ تَحۡبَطَ اَعۡمَالُکُمۡ وَ اَنۡتُمۡ لَا تَشۡعُرُوۡنَ﴿۲﴾

۲۔ اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے بلند نہ کرو اور نبی کے ساتھ اونچی آواز سے بات نہ کرو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے اونچی آواز میں بات کرتے ہو کہیں تمہارے اعمال حبط ہو جائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔

تفسیر آیات

۱۔ ا تَرۡفَعُوۡۤا اَصۡوَاتَکُمۡ فَوۡقَ صَوۡتِ النَّبِیِّ: یہ صرف آداب کا حصہ ہی نہیں بلکہ ایک طرز عمل ہے جس کا سرا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت پر ایمان کی نوعیت سے ملتا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس میں بیٹھنے والوں کو گفتگو کے بارے میں دو باتوں کی تنبیہ کی ہے: پہلی بات یہ ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز سے اپنی آواز اونچی نہ کرو۔ دوسری بات یہ ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے باتیں کرتے ہوئے اونچی آواز میں بات نہ کرو۔ ایک رفع الصوت منع ہے اور دوسرے جہر قول کی ممانعت ہے۔

۱۔ رفع الصوت کی صورت یہ ہو گی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں سے گفتگو فرما رہے ہیں، اس وقت رسول اللہؐ کی آواز سے دیگر لوگوں کی آواز اونچی ہو۔ اس طرح آواز بلند کی جائے کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز دب جائے۔

۲۔ اَنۡ تَحۡبَطَ اَعۡمَالُکُمۡ: اس میں مقام رسالت کے ساتھ بے اعتنائی ہے اور اگر بے اعتنائی کا شائبہ اس کے دل میں نہ ہوتا تو اللہ کے رسول کی آواز پر اپنی آواز اونچی نہ کرتا۔ یہ عمل اس کے ایمان کی نوعیت کا قہری نتیجہ ہے تبھی تو اس کے سارے اعمال برباد ہو جاتے ہیں۔

واضح رہے گناہ سے اعمال حبط نہیں ہوتے، ایمان مخدوش ہونے سے اعمال حبط ہوتے ہیں۔

۳۔ جہر قول کی صورت یہ ہو گی کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محفل میں بیٹھ کر جب آپ سے کوئی بات کرے تو معمول سے زیادہ بلند آواز میں بات کرے۔ اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اس کا ایمان مخدوش ہے ورنہ رسولؐ کی شخصیت کا اس کی آواز پر اثر ہوتا اور اونچا ہو کر نہیں، دب کر بات کرتا۔

لہٰذا رسولؐ کی محفل میں رفع صوت اور جہر قول دونوں کا تعلق اس شخص کے ایمان کی نوعیت سے ہے۔

ذٰلِکَ بِاَنَّہُمُ اتَّبَعُوۡا مَاۤ اَسۡخَطَ اللّٰہَ وَ کَرِہُوۡا رِضۡوَانَہٗ فَاَحۡبَطَ اَعۡمَالَہُمۡ (۴۷ محمد: ۲۸)

یہ اس لیے کہ انہوں نے اس بات کی پیروی کی جو اللہ کو ناراض کرتی ہے اور اللہ کی خوشنودی سے بیزاری اختیار کرتے ہیں لہٰذا اللہ نے ان کے اعمال حبط کر دیے۔

بعض مفسرین آواز اونچی کرنے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت سے مشروط کرتے ہیں حالانکہ اذیت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مسئلہ اپنی جگہ مسلم ہے:

وَ الَّذِیۡنَ یُؤۡذُوۡنَ رَسُوۡلَ اللّٰہِ لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ( ۹ توبۃ: ۶۱)

اور جو لوگ اللہ کے رسول کو اذیت دیتے ہیں ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔

اس آیت کا اطلاق بتاتا ہے کہ یہ اذیت کے عنوان کے تحت نہیں ہے بلکہ یہ عمل خود ایمان کی نوعیت سے مربوط ہے۔

بعض ایسے حالات بھی رونما ہوئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال سے کچھ دیر پہلے آپؐ کی مجلس میں لوگوں نے اس قدر شور مچایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ کہنا پڑا:

قوموا عنی فما ینبغی لنبی ان یکون عندہ ھذا التنازع۔ ( صحیح بخاری و صحیح مسلم )

اٹھ جاؤ میرے پاس سے۔ کسی نبی کے لیے مناسب نہیں ہے کہ اس کے پاس اس قسم کا نزاع برپا ہو۔

اہم نکات

۱۔ انسان کا عمل اس کے ایمان کا آئینہ ہے۔

۲۔ مقام رسولؐ کے احترام کی نوعیت سے ایمان کی نوعیت کا تعین ہوتا ہے۔


آیت 2