آیات 4 - 5
 

اِنَّ الَّذِیۡنَ یُنَادُوۡنَکَ مِنۡ وَّرَآءِ الۡحُجُرٰتِ اَکۡثَرُہُمۡ لَا یَعۡقِلُوۡنَ﴿۴﴾

۴۔ جو لوگ آپ کو حجروں کے پیچھے سے پکارتے ہیں بلاشبہ ان میں سے اکثر عقل نہیں رکھتے ۔

وَ لَوۡ اَنَّہُمۡ صَبَرُوۡا حَتّٰی تَخۡرُجَ اِلَیۡہِمۡ لَکَانَ خَیۡرًا لَّہُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿۵﴾

۵۔ اور اگر یہ لوگ صبر کرتے یہاں تک کہ آپ ان کی طرف نکل آتے تو ان کے لیے بہتر تھا اور اللہ بڑا مغفرت کرنے والا، خوب رحم کرنے والا ہے۔

تشریح کلمات

الۡحُجُرٰتِ:

( ح ج ر ) حجرہ کی جمع۔ کمروں کو کہتے ہیں۔ اس سے مراد ازواج رسولؐ کے مکانات ہیں جو مسجد کے گرد تھے۔

تفسیر آیات

روایات میں آیا ہے کہ یہ حرکت بنی غنیم کے لوگوں سے سرزد ہوئی۔ ان کے ستر افراد پر مشتمل وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملنے کے لیے آیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیشہ لوگوں کی دسترس میں ہوتے تھے سوائے تھوڑے اوقات کے جنہیں آپؐ اپنی نجی زندگی یا آرام کے لیے مختص رکھتے تھے۔ یہ لوگ اسی وقت پہنچ جاتے ہیں اور حجرات کے باہر سے آواز دیتے ہیں: یا محمد! یا محمد! اخرج الینا۔ اے محمد! اے محمد! باہر نکلیں۔

روایات کے مطابق اس قسم کے متعدد واقعات ہوئے جنہیں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے حلم و برد باری کے تحت متحمل فرماتے تھے لیکن اس بار اللہ تعالیٰ نے اس ناشائشتہ حرکت کی سرزنش کرتے ہوئے آداب سکھائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس طرح پکارا نہ کریں بلکہ صبر کریں تاکہ خود ملاقات کے لیے باہر تشریف لائیں۔

۲۔ اَکۡثَرُہُمۡ لَا یَعۡقِلُوۡنَ: ممکن ہے’’ اکثر ‘‘ اس لیے فرمایا ہو کہ ان میں ایک بھی عاقل اور مہذب ہے تو وہ لَا یَعۡقِلُوۡنَ میں شامل نہ ہو۔ لَا یَعۡقِلُوۡنَ عقل و تہذیب سے کام نہیں لیتے جو سمجھدار انسان کا عمل ہوتا ہے اور یہ دیکھا جاتا ہے کہ کس درجے کے انسان سے بات ہو رہی ہے۔

اہم نکات

۱۔ تہذیب و آداب کا تعلق عقل سے ہے۔


آیات 4 - 5