آیات 7 - 8
 

وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ فِیۡکُمۡ رَسُوۡلَ اللّٰہِ ؕ لَوۡ یُطِیۡعُکُمۡ فِیۡ کَثِیۡرٍ مِّنَ الۡاَمۡرِ لَعَنِتُّمۡ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ اِلَیۡکُمُ الۡاِیۡمَانَ وَ زَیَّنَہٗ فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ وَ کَرَّہَ اِلَیۡکُمُ الۡکُفۡرَ وَ الۡفُسُوۡقَ وَ الۡعِصۡیَانَ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الرّٰشِدُوۡنَ ۙ﴿۷﴾

۷۔ اور تمہیں علم ہونا چاہیے کہ اللہ کے رسول تمہارے درمیان موجود ہیں، اگر بہت سے معاملات میں وہ تمہاری بات مان لیں تو تم خود مشکل میں پڑ جاؤ گے لیکن اللہ تعالیٰ نے ایمان کو تمہارے لیے محبوب بنا دیا اور اسے تمہارے دلوں میں مزین فرمایا اور کفر اور فسق اور نافرمانی کو تمہارے نزدیک ناپسندیدہ بنا دیا، یہی لوگ راہ راست پر ہیں،

فَضۡلًا مِّنَ اللّٰہِ وَ نِعۡمَۃً ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ ﴿۸﴾

۸۔ اللہ کی طرف سے فضل اور نعمت کے طور پر اور اللہ خوب جاننے والا، حکمت والا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ فِیۡکُمۡ رَسُوۡلَ اللّٰہِ: ایک تنبیہی اور اعتراض کے لہجے میں فرمایا: تمہیں اس بات کا علم اور اتنا شعور ہونا چاہیے کہ اللہ کے رسولؐ تمہارے درمیان ہیں۔ تم اللہ کے رسولؐ سے ایسی توقع رکھتے ہو جیسی ایک عام آدمی سے۔ عام آدمی لوگوں کی باتوں میں آتے ہیں۔

یہ سرزنش اس بات پرکی گئی کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ اصرار کیا تھا کہ ولید بن عقبہ کی بات مان لینا چاہیے اور بنی مصطلق پر حملہ کر دینا چاہیے، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی بات نہیں مان رہے تھے۔

۲۔ وۡ یُطِیۡعُکُمۡ فِیۡ کَثِیۡرٍ مِّنَ الۡاَمۡرِ لَعَنِتُّمۡ: اگر اللہ کے رسولؐ تمہاری اطاعت کریں تو تم مشکل یا ہلاکت میں پڑ جاؤ گے۔ اطاعت تو اعلیٰ کی ہوتی ہے۔ یہاں رسولؐ کے لیے اطاعت اس لیے استعمال ہوا کہ جس پر اطاعت لازم ہوتی ہے وہ اپنی سوچ نہیں سوچتا۔ رسولؐ اگر تمہاری بات مان لیں اس کا مطلب یہ ہو گا کہ رسول اپنی سوچ نہ سوچیں اور تمہاری بات مان لیں۔

اس جملے میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ کچھ اصحاب، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی خام رائے پر چلانا چاہتے تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں ایک قسم کی گستاخی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ لوگ صائب مشورہ دینے والے نہ تھے۔ ایسی بات پر اصرار کر رہے تھے جس میں مسلمانوں کی ہلاکت ہے۔ تیسری بات یہ بھی سامنے آتی ہے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں ایسے لوگ موجود تھے جو ولید بن عقبہ جیسے آدمی کے حامی تھے اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اختلاف کر رہے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کیا ممکن نہیں ہے؟

۳۔ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ: لیکن کچھ لوگ ایسے بھی درمیان میں ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے تقویٰ کے ساتھ آزمایا ہے ۔وہ رسولؐ سے ایسی توقع نہیں رکھتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسے لوگوں کے حسن نیت کی وجہ سے اللہ نے ان کے دلوں میں ایمان کو محبوب اور وَ زَیَّنَہٗ خوشنما بنا دیا اس لیے ایمان کے منافی عمل ان سے سرزد نہیں ہوتا۔ وہ اس گروہ کے علاوہ باقی اصحاب رسولؐ تھے۔

۴۔ وَ کَرَّہَ اِلَیۡکُمُ: اور تین باتوں کو ان کے لیے ناپسندیدہ بنا دیا: کفر، فسوق اور عصیان و نافرمانی۔ ان تین لفظوں سے ممکن ہے اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ جو لوگ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا مطیع بنانا چاہتے تھے وہ ایمان کے درجے پر فائز نہ تھے۔ وہ فسق کو ترجیح دیتے تھے۔ اس لیے ولید بن عقبہ جیسے ایک فاسق کی حمایت کر رہے تھے اور عصیان پسند لوگ تھے۔ رسولؐ کی فرماں برداری کی جگہ نافرمانی کرنے کو ترجیح دیتے تھے۔ فسق سے مراد روایت کے مطابق جھوٹ ہے۔

لیکن ان لوگوں میں ایمان محبوب اور کفر و فسوق و عصیان مکروہ ہے۔

۵۔ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الرّٰشِدُوۡنَ: یہ لوگ، جنہیں لفظ لٰکِنَّ کے ساتھ استثنا کیا ہے راہ راست پر ہیں۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کرتے ہیں، آپ کو اپنے زیر اثر لانا نہیں چاہتے بلکہ وہ آپ کے زیر اثر رہتے ہیں۔

۶۔ فَضۡلًا مِّنَ اللّٰہِ وَ نِعۡمَۃً: یہ ان لوگوں پر اللہ کا فضل اور نعمت ہے کہ انہیں اللہ نے ایمان سے نوازا اور دیگر بری صفات سے بچایا ہے۔

اہم نکات

۱۔ رسولؐ کی اطاعت ایمان دوستی ہے۔ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے زیر اثر لانے کی کوشش کفر، فسوق اور عصیان ہے۔


آیات 7 - 8