آیت 3
 

اِنَّ الَّذِیۡنَ یَغُضُّوۡنَ اَصۡوَاتَہُمۡ عِنۡدَ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ امۡتَحَنَ اللّٰہُ قُلُوۡبَہُمۡ لِلتَّقۡوٰی ؕ لَہُمۡ مَّغۡفِرَۃٌ وَّ اَجۡرٌ عَظِیۡمٌ﴿۳﴾

۳۔ جو لوگ اللہ کے رسول کے سامنے دھیمی آواز میں بات کرتے ہیں بلاشبہ یہی وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ نے تقویٰ کے لیے آزما لیے ہیں ان کے لیے مغفرت اور اجر عظیم ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ یَغُضُّوۡنَ اَصۡوَاتَہُمۡ: جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس میں دھیمی آواز سے بات کرتے ہیں ان کے قلب و شعور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت اور شوکت حاکم ہے جو ایمان بالرسول کی علامت اور ایمان باللہ کا نتیجہ ہے۔

۲۔ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ امۡتَحَنَ اللّٰہُ قُلُوۡبَہُمۡ: یہ اہل ایمان وہ لوگ ہیں جن کے دلوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی آزمائشوں میں کامیابی حاصل کی ہے۔ اس آزمائش کا تعلق تقویٰ سے ہے۔ تقویٰ وقایۃ سے، بچنے کے معنی میں ہے۔ پس یہ ایمان سے مالا مال دل، اپنے دل کو ایمان کے منافی تمام باتوں سے بچانے کے سلسلے میں ہر آزمائش میں کامیاب رہا ہے۔

۳۔ لَہُمۡ مَّغۡفِرَۃٌ وَّ اَجۡرٌ عَظِیۡمٌ: لہٰذا ان کے اعمال حبط نہیں، قبول ہوں گے۔ قبول اعمال کے دو نتائج ہیں: ایک مغفرت، دوسرا اجر عظیم ہے۔

جس طرح حیات رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آپؐ کی مجلس میں شور مچانا جائز نہیں ہے، بعد از وصال قبر مطہر کے نزدیک شور مچانا خلاف ادب ہے۔ چنانچہ اصول کافی میں حضرت امام محمد باقرعلیہ السلام سے روایت ہے: جب حضرت عائشہ نے حضرت امام حسن علیہ السلام کو قبر رسول کے جوار میں دفن کرنے سے روکا تو اس وقت آوازیں بلند ہوئیں۔ حضرت امام حسین علیہ السلام نے آیہ لَا تَرۡفَعُوۡۤا اَصۡوَاتَکُمۡ سے استدلال فرمایا۔ قبر رسول کے پاس شور مچانا جائز نہیں ہے۔ (الکافی ۱: ۳۰۳ ح ۳)

اہم نکات

۱۔ جس دل نے تقویٰ کا امتحان دیا ہو، زبان اور آواز اس کے ایمان کی گواہی دیتی ہیں۔


آیت 3