آیت 6
 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ جَآءَکُمۡ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوۡۤا اَنۡ تُصِیۡبُوۡا قَوۡمًۢا بِجَہَالَۃٍ فَتُصۡبِحُوۡا عَلٰی مَا فَعَلۡتُمۡ نٰدِمِیۡنَ﴿۶﴾

۶۔ اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تم تحقیق کر لیا کرو، کہیں نادانی میں تم کسی قوم کو نقصان پہنچا دو پھر تمہیں اپنے کیے پر نادم ہونا پڑے۔

تفسیر آیات

۱۔ اِنۡ جَآءَکُمۡ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ: فاسق، فسق سے ہے جو چوہے کے اپنے بل سے نکلنے اور پھل کے اپنے چھلکے سے نکلنے کو کہتے ہیں اور مسلمان جو شرعی حدود سے نکلتا ہے اسے فاسق کہتے ہیں۔

شان نزول کے بارے میں اکثر مفسرین مورخین کا اتفاق ہے کہ یہ آیت ولید بن عقبہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ واقعہ یہ ہے:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ولید بن عقبہ کو قبیلہ بنی مصطلق سے زکوۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا۔ یہ ان کے نزدیک پہنچ کر خوف کے مارے واپس آ گیا (کیونکہ زمان جاہلیت میں ولید اور بنی مصطلق کے درمیان دشمنی تھی۔) ولید نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا: وہ زکوٰۃ دینے سے انکار کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رنجیدہ ہوئے اور ان کے ساتھ جنگ کرنے کا ارادہ کر لیا اور بنی مصطلق سے فرمایا:

لتنتھن او لا بعثن الیکم رجلا کنفسی یقاتل مقاتلتکم و یسبی ذراریکم۔ ثم ضرب یدہ علی کتف علی رضی اللہ عنہ۔ (الکشافذیل آیہ)

تم باز آجاؤ ورنہ میں ایسے فرد کو تمہاری طرف روانہ کروں گا جو میرے نفس کی طرح ہے جو تمہارے لڑنے والوں سے لڑے گا اور تمہارے بچوں کو قیدی بنائے گا۔ یہ کہہ کر حضرت علی علیہ السلام کے کاندھوں پر ہاتھ رکھا۔

اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی اور حکم دیا کہ فاسق کی خبر کا اعتبار نہ کرو۔ حقیقت حال کی چھان بین کرو۔

ولید بن عقبہ حضرت عثمان کا مادری بھائی ہے۔ اس نے فتح مکہ کے بعد ایمان کا اظہار کیا۔ سعد بن ابی وقاص کے بعداسے عثمان نے کوفے کا گورنر بنایا۔ اس دوران اس نے ایک دفعہ صبح کی نماز نشے کی حالت میں چار رکعت پڑھا دی اور لوگوں سے کہا: مزید اضافہ کروں؟ اور محراب میں شراب کی قے کی۔ لوگوں نے اسے کنکریاں مار کرمسجدسے بھگا دیا۔ شراب نوشی ثابت ہونے پر اس پر حد جاری کر دی گئی۔ ( الکامل سن ۳۰ ہجری کے حالات و دیگر کتب تاریخ و سیرت)

ولید کو قرآن مجید میں دو جگہ فاسق کہا گیا ہے: ایک اس آیت میں اور دوسری جگہ سورہ سجدہ آیت ۱۸ میں:

اَفَمَنۡ کَانَ مُؤۡمِنًا کَمَنۡ کَانَ فَاسِقًا ؕؔ لَا یَسۡتَوٗنَ

بھلا جو مومن ہو وہ فاسق کی طرح ہو سکتا ہے؟ یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے۔

واحدی، ابن اسحاق، ابن جریر، ابن عدی، ابن مردویہ، خطیب، ابن عساکر، عطاء بن یسار، ابن ابی حاتم، سدی اور عبد بن ابی لیلی وغیرہ نے متعدد طرق سے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ ولید نے علی بن ابی طالب (علیہ السلام) سے کہا:

میں آپ سے بہتر نیزہ زن، بولنے میں زباں دراز اور لشکر میں زیادہ نمایاں ہوں۔

علی علیہ السلام نے فرمایا:

اسکت فانما انت فاسق۔

خاموش ہوجا، تو تو بس فاسق ہے۔

اس پر یہ آیت نازل ہوئی: اَفَمَنۡ کَانَ مُؤۡمِنًا کَمَنۡ کَانَ فَاسِقًا ؕؔ لَا یَسۡتَوٗنَ۔ ( الدر المنثور ۵: ۱۷۷)

اس واقعہ نے عصر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں شہرت حاصل کی۔ چنانچہ حسان بن ثابت نے اس موقع پر شعر بھی کہا ہے:

انزل اللہ والکتاب عزیز

فی علی و فی الولید قرآنا

فتبوأ الولید من ذاک فسقاً

وعلی مبوأ ایمانا

لیس من کان مؤمنا عرف اللہ

کمن کان فاسقا خواناً

سوف یجزی الولید خزیا و ناراً

و علی لا شک یجزی جنانا (بحار ۳۸: ۲۳۵)

ابن عبد البر نے الاستیعاب میں کہا ہے:

میرے علم کے مطابق اہل علم میں اس بات پر کوئی اختلاف نہیں کہ آیہ اِنۡ جَآءَکُمۡ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ۔۔۔۔ ولید بن عقبۃ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

اگرچہ صاحب التحریر و التنویر کو اس حقیقت پر روشنی کی کمی لاحق ہوئی اور ولید کی صف میں بیٹھ گئے۔ اس کا دفاع کرتے ہوئے کہا: وکان ذا خلق و مروء ۃ۔ ( التحریر و التنویر ۲۶: ۱۹۲) اور وہ اخلاق اور مروت کا حامل تھا۔

روح المعانی میں اس آیت کے ذیل لکھا ہے:

اس آیت سے استدلال کیا گیا ہے کہ اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں سے بعض غیر عادل بھی ہیں چونکہ سبب نزول میں ولید بن عقبہ یقینا داخل ہے اور بالاتفاق صحابی بھی ہے۔ لہٰذا اس آیت سے وہ قول رد ہو جاتا ہے جو کہتے ہیں: تمام اصحاب عادل ہیں۔ کسی روایت اور شہادت میں ان کی عدالت ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس مسئلے میں یہ ایک قول ہے۔ علمائے سلف و خلف میں سے اکثر نے اسی قول کو اختیار کیا ہے۔

دوسرا قول یہ ہے: اصحاب، غیر اصحاب کی طرح ہیں۔ لہٰذا روایت اور شہادت میں اصحاب کی عدالت ثابت کرنا ضروری ہے مگر وہ حضرات جن کی عدالت یقینی ہے۔ جیسے شیخین۔

تیسرا قول یہ ہے: قتل عثمان رضی اللہ عنہ تک سب عادل ہیں۔ قتل عثمان کے بارے میں اصحاب کی عدالت کے بارے میں تحقیق ہونی چاہیے چونکہ قتل عثمان کے بعد فتنہ واقع ہو گیا اور کچھ اصحاب نے اس فتنے سے پرہیز کیا ہے۔

چوتھا قول یہ ہے: تمام اصحاب عادل ہیں سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے علی کرم اللّٰہ وجہ سے جنگ کی ہے۔ چونکہ امام حق سے خروج اختیار کرنے والے فاسق ہو جاتے ہیں۔ معتزلہ نے یہ قول اختیار کیا ہے۔۔۔۔ ا نتہی

ہم نے اس سورہ مبارکہ کی آیت ایک کے ذیل میں لکھا ہے کہ حکم شرعی کو ثابت کرنے کے لیے یقینی دلیل ہونی چاہیے یا ایسی دلیل ہونی چاہیے جس کے دلیل ہونے کا یقین ہو۔ خبر فاسق، کسی خبر کی دلیل نہیں بن سکتی۔

اصول فقہ میں ایک بحث ہے کہ صفت کا مفہوم نہیں ہوتا۔ یعنی اگر کسی حکم کو صفت کے ساتھ بیان کیا جائے تو اس صفت کے نہ ہونے سے حکم کے نہ ہونے کا انکشاف نہیں ہوتا۔ مثلاً کہا جائے: عالم گھر میں آ جائے تو کھانا کھلاؤ، اس کا مفہوم نہیں بنتا۔ کیا غیر عالم گھر میں آ جائے تو کھانا کھلانا لازم نہیں ہے؟ بلکہ اس جملے سے عالم کو کھانا کھلانے کا حکم ثابت ہوتا ہے۔ غیر عالم کا حکم اس جملے میں نہیں ہے۔ نہ کھلانے کا حکم ہے، نہ ہی نہ کھلانے کا حکم ہے۔ دوسری دلیل سے اس کا حکم تلاش کرنا ہو گا۔

اہم نکات

۱۔ فاسق، خواہ صحابی کیوں نہ ہو، معاشرے میں کسی امر کی ذمہ داری کا اہل نہیں ہے۔


آیت 6