وَّ اُخۡرٰی لَمۡ تَقۡدِرُوۡا عَلَیۡہَا قَدۡ اَحَاطَ اللّٰہُ بِہَا ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرًا﴿۲۱﴾

۲۱۔ اور دیگر (غنیمتیں) بھی جن پر تم قادر نہ تھے، وہ اللہ کے احاطہ قدرت میں آ گئیں اور اللہ ہر چیز پر خوب قادر ہے۔

وَ لَوۡ قٰتَلَکُمُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَوَلَّوُا الۡاَدۡبَارَ ثُمَّ لَا یَجِدُوۡنَ وَلِیًّا وَّ لَا نَصِیۡرًا﴿۲۲﴾

۲۲۔ اور اگر کفار تم سے جنگ کرتے تو پیٹھ دکھا کر فرار کرتے، پھر وہ نہ کوئی کارساز پاتے اور نہ مددگار۔

22۔ اگر جنگ کافروں اور مسلمانوں میں ہو رہی ہے تو اس صورت میں اللہ کی طرف سے فتح کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ یہ مسلمانوں کی مادی و روحانی طاقت پر موقوف ہے۔ اگر جنگ کفر و اسلام میں ہو اور مسلمانوں سے بھی کوئی جنگی خیانت سرزد نہ ہوئی ہو تو اس صورت میں اللہ کی طرف سے فتح کی ضمانت ہے۔

سُنَّۃَ اللّٰہِ الَّتِیۡ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلُ ۚۖ وَ لَنۡ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبۡدِیۡلًا﴿۲۳﴾

۲۳۔ اللہ کے دستور کے مطابق جو پہلے سے رائج ہے اور آپ اللہ کے دستور میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے۔

23۔ یہ الٰہی دستور و قانون ہے۔ تمام امتوں کے لیے رائج ہے۔ چنانچہ بدر میں مسلمانوں سے کوئی جنگی خیانت سرزد نہیں ہوئی تو اسلام کے ایک بے سر و سامان چھوٹے سے لشکر کو کفر کی بڑی طاقت پر فتح بھی دے دی گئی۔

وَ ہُوَ الَّذِیۡ کَفَّ اَیۡدِیَہُمۡ عَنۡکُمۡ وَ اَیۡدِیَکُمۡ عَنۡہُمۡ بِبَطۡنِ مَکَّۃَ مِنۡۢ بَعۡدِ اَنۡ اَظۡفَرَکُمۡ عَلَیۡہِمۡ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرًا﴿۲۴﴾

۲۴۔ اور وہ وہی ہے جس نے کفار پر تم کو فتحیاب کرنے کے بعد وادی مکہ میں ان کے ہاتھ تم سے اور تمہارے ہاتھ ان سے روک دیے اور اللہ تمہارے اعمال پر خوب نظر رکھتا ہے۔

24۔ عرب کا قانون تھا کہ ہر شخص کو حج اور عمرہ کے لیے بیت اللہ جانے کا حق ہے اور مسلمہ حق کو صرف اپنی جاہلی حمیت اور تعصب کی بنیاد پر مسلمانوں سے سلب کیا۔ اس کے مقابلے میں مسلمانوں میں ہیجان آنا چاہیے تھا، جس کا نتیجہ اسلام کی مصلحت میں نہ تھا۔ اس لیے اللہ تعالی نے ان پر اپنا سکون نازل فرمایا۔

ہُمُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ صَدُّوۡکُمۡ عَنِ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ وَ الۡہَدۡیَ مَعۡکُوۡفًا اَنۡ یَّبۡلُغَ مَحِلَّہٗ ؕ وَ لَوۡ لَا رِجَالٌ مُّؤۡمِنُوۡنَ وَ نِسَآءٌ مُّؤۡمِنٰتٌ لَّمۡ تَعۡلَمُوۡہُمۡ اَنۡ تَطَـُٔوۡہُمۡ فَتُصِیۡبَکُمۡ مِّنۡہُمۡ مَّعَرَّۃٌۢ بِغَیۡرِ عِلۡمٍ ۚ لِیُدۡخِلَ اللّٰہُ فِیۡ رَحۡمَتِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ ۚ لَوۡ تَزَیَّلُوۡا لَعَذَّبۡنَا الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡہُمۡ عَذَابًا اَلِیۡمًا﴿۲۵﴾

۲۵۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے کفر کیا اور تمہیں مسجد الحرام سے روکا اور قربانیوں کو بھی اپنی جگہ (قربان گاہ) تک پہنچنے سے روک دیا اور اگر (مکہ میں) ایسے مومن مرد اور مومنہ عورتیں نہ ہوتیں جنہیں تم نہیں جانتے تھے (اور یہ خطرہ نہ ہوتا) کہ کہیں تم انہیں روند ڈالو اور بے خبری میں ان کی وجہ سے تمہیں بھی ضرر پہنچ جائے (تو اذن جہاد مل جاتا) تاکہ اللہ جسے چاہے اپنی رحمت میں داخل کرے، اگر (کافر اور مسلمان) الگ الگ ہو جاتے تو ان میں سے جو لوگ کافر ہیں انہیں ہم دردناک عذاب دیتے۔

25۔ یہ تھی وہ مصلحت جس کی وجہ سے حدیبیہ میں اللہ نے جنگ نہ ہونے دی۔ کیونکہ مکے میں بہت سے مسلمان مرد اور عورتیں موجود تھے، جو ہجرت کرنے پر قادر نہ تھے۔ اگر جنگ ہوتی تو نادانستگی میں کفار کے ساتھ یہ مسلمان بھی مارے جاتے۔

اِذۡ جَعَلَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا فِیۡ قُلُوۡبِہِمُ الۡحَمِیَّۃَ حَمِیَّۃَ الۡجَاہِلِیَّۃِ فَاَنۡزَلَ اللّٰہُ سَکِیۡنَتَہٗ عَلٰی رَسُوۡلِہٖ وَ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ اَلۡزَمَہُمۡ کَلِمَۃَ التَّقۡوٰی وَ کَانُوۡۤا اَحَقَّ بِہَا وَ اَہۡلَہَا ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمًا﴿٪۲۶﴾

۲۶۔ جب کفار نے اپنے دلوں میں تعصب رکھا تعصب بھی جاہلیت کا تو اللہ نے اپنے رسول اور مومنین پر اپنا سکون نازل فرمایا اور انہیں تقویٰ کے اصول پر ثابت رکھا اور وہ اس کے زیادہ مستحق اور اہل تھے اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھتا ہے۔

لَقَدۡ صَدَقَ اللّٰہُ رَسُوۡلَہُ الرُّءۡیَا بِالۡحَقِّ ۚ لَتَدۡخُلُنَّ الۡمَسۡجِدَ الۡحَرَامَ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ اٰمِنِیۡنَ ۙ مُحَلِّقِیۡنَ رُءُوۡسَکُمۡ وَ مُقَصِّرِیۡنَ ۙ لَا تَخَافُوۡنَ ؕ فَعَلِمَ مَا لَمۡ تَعۡلَمُوۡا فَجَعَلَ مِنۡ دُوۡنِ ذٰلِکَ فَتۡحًا قَرِیۡبًا﴿۲۷﴾

۲۷۔ بتحقیق اللہ نے اپنے رسول کے حق پر مبنی خواب کو سچا ثابت کیا کہ اللہ نے چاہا تو تم لوگ اپنے سر تراش کر اور بال کتروا کر امن کے ساتھ بلا خوف مسجد الحرام میں ضرور داخل ہو گے، پس اسے وہ بات معلوم تھی جو تم نہیں جانتے تھے، پس اس نے اس کے علاوہ بھی ایک نزدیکی فتح ممکن بنا دی۔

27۔ جب مسلمان حدیبیہ سے عمرہ کیے بغیر واپس ہو گئے تو ذہنوں میں یہ سوال اٹھنا قدرتی امر تھا کہ پھر اس خواب کا کیا نتیجہ تھا جو حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دیکھا تھا؟ اللہ تعالیٰ نے خود وضاحت فرمائی کہ وہ خواب سچا ہے اور پورا ہونے والا ہے۔

ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ ؕ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیۡدًا ﴿ؕ۲۸﴾

۲۸۔ وہ وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ اسے ہر دین پر غالب کر دے اور گواہی دینے کے لیے اللہ ہی کافی ہے۔

مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰہِ ؕ وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ تَرٰىہُمۡ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبۡتَغُوۡنَ فَضۡلًا مِّنَ اللّٰہِ وَ رِضۡوَانًا ۫ سِیۡمَاہُمۡ فِیۡ وُجُوۡہِہِمۡ مِّنۡ اَثَرِ السُّجُوۡدِ ؕ ذٰلِکَ مَثَلُہُمۡ فِی التَّوۡرٰىۃِ ۚۖۛ وَ مَثَلُہُمۡ فِی الۡاِنۡجِیۡلِ ۚ۟ۛ کَزَرۡعٍ اَخۡرَجَ شَطۡـَٔہٗ فَاٰزَرَہٗ فَاسۡتَغۡلَظَ فَاسۡتَوٰی عَلٰی سُوۡقِہٖ یُعۡجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیۡظَ بِہِمُ الۡکُفَّارَ ؕ وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنۡہُمۡ مَّغۡفِرَۃً وَّ اَجۡرًا عَظِیۡمًا﴿٪۲۹﴾

۲۹۔ محمد (صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت گیر اور آپس میں مہربان ہیں، آپ انہیں رکوع، سجود میں دیکھتے ہیں، وہ اللہ کی طرف سے فضل اور خوشنودی کے طلبگار ہیں سجدوں کے اثرات سے ان کے چہروں پر نشان پڑے ہوئے ہیں، ان کے یہی اوصاف توریت میں بھی ہیں اور انجیل میں بھی ان کے یہی اوصاف ہیں، جیسے ایک کھیتی جس نے (زمین سے) اپنی سوئی نکالی پھر اسے مضبوط کیا اور وہ موٹی ہو گئی پھر اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہو گئی اور کسانوں کو خوش کرنے لگی تاکہ اس طرح کفار کا جی جلائے، ان میں سے جو لوگ ایمان لائے اور اعمال صالح بجا لائے ان سے اللہ نے مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ کیا ہے۔

29۔ اس آیت میں رسول اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھیوں کے پانچ اہم ایسے اوصاف بیان ہوئے ہیں جن کی مثال دوسری آسمانی کتابوں میں بھی ہے۔ رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہم عصر مسلمانوں میں سے جن ہستیوں میں یہ اوصاف موجود ہوں، ان کے لیے یہ بہت بڑی فضلیت ہے۔ یہ ایسی فضلیت ہے جس کے لیے خود اللہ اجر عظیم کا صریح وعدہ فرما رہا ہے۔ یہ وعدہ ان لوگوں کے لیے ہے جو رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی معیّت میں ہیں۔ معیّت اور صحبت میں فرق ہے۔ صحبت ایک جگہ ساتھ پائے جانے کو کہتے ہیں، جبکہ معیّت ایک مشن ایک تحریک میں ہر قدم پر ساتھ دینے کو کہتے ہیں۔ چنانچہ ان ربی یصاحبنی نہیں کہتے بلکہ اِنَّ مَعِیَ رَبِّیۡ کہتے ہیں، اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا کہتے ہیں، چونکہ اللہ ہر قدم پر ساتھ ہوتا ہے اور وَ طَآئِفَۃٌ مِّنَ الَّذِیۡنَ مَعَکَ (مزمل:20) اور ایک جماعت جو آپ کے ساتھ ہے۔ قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ سورہ توبہ آیت 40 میں فرمایا: اِذۡ یَقُوۡلُ لِصَاحِبِہٖ لَا تَحۡزَنۡ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا ۔ اس میں ساتھی کے لیے صاحبہ اور اللہ کے لیے مَعَنَا کہا۔ یعنی رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ایک ساتھی کی صحبت اور اللہ کی معیّت حاصل تھی۔ وہ لوگ جو ہر میدان میں رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ نہیں رہے اور جنہوں نے میدان جنگ میں ایک کافر کو بھی نہیں مارا نیز جو آپس میں نہایت تند مزاجی سے پیش آئے ہوں، وہ لوگ اس آیت کے مصداق نہیں ہیں۔ اس آیت مبارکہ سے وہ موضوعاً خارج ہیں، جن پر یہ آیت صادق آتی ہے، ان پر طعن، قرآن کی نص صریح کے خلاف ہے۔ اس کا کوئی مسلمان مرتکب نہیں ہو سکتا اور جن پر یہ آیت صادق نہیں آتی ان کو آیت سے خارج سمجھنا طعن نہیں ہے۔ چنانچہ اَصۡحٰبُ اُفِکَ میں بدری بھی شامل ہیں، جن کی سورہ نور آیت 23 میں بھرپور مذمت ہے۔ ولید بن عتبہ بھی صحابی ہے۔ سورہ حجرات آیت 6 میں اسے فاسق کہا ہے۔ اس بنا پر وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗ میں معیّت مراد لینا ہو گا، صحبت نہیں۔ اسی لیے اول تو مِّنَ برائے تبعیض ہے، چونکہ مِّنَ بیانیہ ضمیر پر داخل نہیں ہوتا، ثانیاً اس مِّنَ سے ہٹ کر خود قرآنی دیگر آیات اور تاریخی شواہد اس استثنا پر قطعی شاہد ہیں۔

لِیَغِیۡظَ بِہِمُ الۡکُفَّارَ : تاکہ ان کی نشو و نما کفار کو جلائے۔ جن پر کفار جلتے ہیں ان کی رسول سے معیت ثابت ہوتی ہے۔ نہ مطلق جلنا، بلکہ رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہر قدم میں معیت کی وجہ سے جلنا۔ ایسا نہیں ہے کہ جو بھی لوگ ان پر جلتے ہوں، وہ کافر ثابت ہو جائیں۔ اصحاب ایک دوسرے پر نہ صرف جلتے تھے، مقاتلہ تک کی نوبت آتی تھی۔ اگر کسی صحابی پر جلنے والا کافر ہوتا ہے تو اس کی زد میں عصر معاویہ سے عصر عمر بن عبد العزیز تک ساری امت آ جاتی ہے۔ اس نکتے کی طرف متوجہ ہو کر مفسر تھانوی نے لکھا ہے: صحابہ پر کافروں کے ذی غیظ ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ جو بھی صحابہ پر ذی غیظ ہو وہ کافر ہے۔