رسولؐ کے ساتھ مؤدبانہ گفتگو کرنے کا حکم


یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَرۡفَعُوۡۤا اَصۡوَاتَکُمۡ فَوۡقَ صَوۡتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجۡہَرُوۡا لَہٗ بِالۡقَوۡلِ کَجَہۡرِ بَعۡضِکُمۡ لِبَعۡضٍ اَنۡ تَحۡبَطَ اَعۡمَالُکُمۡ وَ اَنۡتُمۡ لَا تَشۡعُرُوۡنَ﴿۲﴾

۲۔ اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے بلند نہ کرو اور نبی کے ساتھ اونچی آواز سے بات نہ کرو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے اونچی آواز میں بات کرتے ہو کہیں تمہارے اعمال حبط ہو جائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔

2۔ یہ صرف آداب کا حصہ ہی نہیں، بلکہ ایک طرز عمل ہے، جس کا سرا رسول ﷺ کی رسالت پر ایمان کی نوعیت سے ملتا ہے کہ اللہ کے نزدیک رسول ﷺ کی یہ عظمت ہے کہ ان کے سامنے اونچی آواز سے بات کرنے سے عمل حبط ہو جاتا ہے۔ جبکہ بعض لوگوں نے رسول ﷺ کی مجلس میں بیٹھ کر اس قدر شور مچایا کہ رسول ﷺ کو قومواعنی کہنا پڑا۔ چونکہ رسول ﷺ کبھی ذاتی حیثیت میں بات نہیں کرتے، بلکہ جو بھی بات کرتے ہیں وہ اللہ کی طرف سے ہوتی ہے۔ لہٰذا رسول ﷺ کے ساتھ بے اعتنائی، رسالت کے ساتھ بے اعتنائی ہے اور رسالت کے ساتھ بے اعتنائی خود اللہ تعالیٰ کے ساتھ بے اعتنائی ہے۔