وَّ اَخۡذِہِمُ الرِّبٰوا وَ قَدۡ نُہُوۡا عَنۡہُ وَ اَکۡلِہِمۡ اَمۡوَالَ النَّاسِ بِالۡبَاطِلِ ؕ وَ اَعۡتَدۡنَا لِلۡکٰفِرِیۡنَ مِنۡہُمۡ عَذَابًا اَلِیۡمًا﴿۱۶۱﴾

۱۶۱۔ اور اس سبب سے بھی کہ وہ سود خوری کرتے تھے جبکہ اس سے انہیں منع کیا گیا تھا اور لوگوں کا مال ناحق کھانے کے سبب سے بھی اور ان میں سے جو کافر ہیں ان کے لیے ہم نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔

155 تا 161۔ ان آیات کا وسط کلام جملہ ہائے معترضہ کو نکالنے کے بعد اس طرح بنتا ہے: ”اس سبب سے کہ یہود نے عہد شکنی کی، آیات کا انکار کیا اور کہا کہ ہمارے دل غلاف میں محفوظ ہیں کہ ان پر غیر یہودی تعلیمات کا اثر نہیں ہوتا۔ حضرت مریم علیہ السلام پر عظیم بہتان باندھا اور کہا ہم نے مسیح کو قتل کیا، ظلم کا ارتکاب کیا، اکثر لوگوں کو راہ راست سے روکا، منع کے باوجود سود خوری کی، لوگوں کا مال ناحق کھایا۔ ان تمام باتوں کے سبب سے ہم نے ان پر بہت سی پاک چیزیں حرام کر دیں اور ان کے لیے ایک دردناک عذاب تیار کیا۔

لٰکِنِ الرّٰسِخُوۡنَ فِی الۡعِلۡمِ مِنۡہُمۡ وَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ مِنۡ قَبۡلِکَ وَ الۡمُقِیۡمِیۡنَ الصَّلٰوۃَ وَ الۡمُؤۡتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ وَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ ؕ اُولٰٓئِکَ سَنُؤۡتِیۡہِمۡ اَجۡرًا عَظِیۡمًا﴿۱۶۲﴾٪

۱۶۲۔لیکن ان میں سے جو علم میں راسخ ہیں اور اہل ایمان ہیں وہ اس پر ایمان لاتے ہیں جو آپ پر نازل کیا گیا اور جو آپ سے پہلے نازل کیا گیا اور نماز قائم کرنے والے ہیں اور زکوٰۃ دینے والے ہیں اور اللہ اور روز آخرت پر ایمان لانے والے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جن کو عنقریب ہم اجر عظیم عطا کریں گے۔

162۔ اہل کتاب کا حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے یہ مطالبہ کہ آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کے لیے آسمان سے ایک کتاب اتار لائیں، ایک جاہلانہ اور معاندانہ مطالبہ ہے۔ ورنہ جو علم میں پختہ ہیں اور ایماندار ہیں وہ ایسے نامعقول مطالبے نہیں کرتے، بلکہ وہ آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور سابقہ انبیاء کی تعلیمات پر ایمان لاتے ہیں۔ چونکہ انہیں معلوم ہے کہ رسالت مآب صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تعلیمات میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو انبیائے سلف کی تعلیمات و معجزات سے متصادم ہو۔

اِنَّاۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ کَمَاۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰی نُوۡحٍ وَّ النَّبِیّٖنَ مِنۡۢ بَعۡدِہٖ ۚ وَ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰۤی اِبۡرٰہِیۡمَ وَ اِسۡمٰعِیۡلَ وَ اِسۡحٰقَ وَ یَعۡقُوۡبَ وَ الۡاَسۡبَاطِ وَ عِیۡسٰی وَ اَیُّوۡبَ وَ یُوۡنُسَ وَ ہٰرُوۡنَ وَ سُلَیۡمٰنَ ۚ وَ اٰتَیۡنَا دَاوٗدَ زَبُوۡرًا﴿۱۶۳﴾ۚ

۱۶۳۔(اے رسول)ہم نے آپ کی طرف اسی طرح وحی بھیجی ہے جس طرح نوح اور ان کے بعد کے نبیوں کی طرف بھیجی، اور جس طرح ہم نے ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یعقوب، اولاد یعقوب، عیسیٰ، ایوب، یونس، ہارون اور سلیمان کی طرف (وحی بھیجی) اور داؤد کو ہم نے زبور دی۔

163۔اہل کتاب کے نامعقول مطالبے کا جواب جاری ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر وحی کا نزول سابقہ انبیاء کا تسلسل ہے۔ یہ کوئی انوکھی چیز نہیں ہے، جو کبھی پہلے دیکھنے میں نہ آئی ہو بلکہ یہ سنت الہٰی ہے کہ اس نے یکے بعد دیگرے انبیاء بھیجے۔

وَ رُسُلًا قَدۡ قَصَصۡنٰہُمۡ عَلَیۡکَ مِنۡ قَبۡلُ وَ رُسُلًا لَّمۡ نَقۡصُصۡہُمۡ عَلَیۡکَ ؕ وَ کَلَّمَ اللّٰہُ مُوۡسٰی تَکۡلِیۡمًا﴿۱۶۴﴾ۚ

۱۶۴۔ ان رسولوں پر (وحی بھیجی) جن کے حالات کا ذکر ہم پہلے آپ سے کر چکے ہیں اور ان رسولوں پر بھی جن کے حالات کا ذکر ہم نے آپ سے نہیں کیا اور اللہ نے موسیٰ سے تو خوب باتیں کی ہیں۔

164۔ یعنی اس سورے سے پہلے نازل ہونے والی مکی سورتوں میں جن انبیاء کا ذکر آیا ہے، ان کے علاوہ وہ انبیاء جن کا ذکر باقی سورتوں میں آیا ہے اور وہ انبیاء جن کا ذکر قرآن میں نہیں آیا۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے ہر قوم کی طرف ایک نبی بھیجا ہے۔ قرآن میں تقریباً 26 انبیاء کا صریحاً ذکر ہے اور بعض انبیاء کا نام لیے بغیر اشارۃً ذکر فرمایا ہے۔ اکثر روایات کے مطابق انبیاء کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار ہے، جن میں سے تین سو تیرہ مرسل اور پانچ اولوالعزم ہیں۔ حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ علیہم السلام اور حضرت محمد مصطفیٰ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم۔

رُسُلًا مُّبَشِّرِیۡنَ وَ مُنۡذِرِیۡنَ لِئَلَّا یَکُوۡنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّۃٌۢ بَعۡدَ الرُّسُلِ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَزِیۡزًا حَکِیۡمًا﴿۱۶۵﴾

۱۶۵۔ (یہ سب) بشارت دینے والے اور تنبیہ کرنے والے رسول بنا کر بھیجے گئے تھے تاکہ ان رسولوں کے بعد لوگوں کے لیے اللہ کے سامنے کسی حجت کی گنجائش نہ رہے اور اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔

165۔ اللہ تعالیٰ حجت پوری کرنے سے پہلے کسی سے مؤاخذہ نہیں کرتا اور یہ ایک عقلی قاعدہ ہے کہ کسی بات کا حکم جاری کیے بغیر اس کے بارے میں بازپرس نہیں ہو سکتی۔ اگر خادم سے یہ نہ کہا جائے کہ پانی دے دو تو پانی نہ دینے پر اس سے بازپرس نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ نبوت کی ضرورت اسی اصول اور قاعدے کے تحت ہے۔ اگر انبیاء کے ذریعے حجت پوری نہ ہوئی ہوتی تو لوگوں کو یہ بات کرنے کا حق حاصل ہو جاتا: رَبَّنَا لَوْ لَآ اَرْسَلْتَ اِلَيْنَا رَسُوْلًا فَنَتَّبِعَ اٰيٰتِكَ ۔ (طٰہٰ: 134) ہمارے پروردگار! تو نے ہماری طرف رسول کیوں نہیں بھیجا کہ ہم تیرے احکام کی پیروی کرتے؟

لٰکِنِ اللّٰہُ یَشۡہَدُ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اِلَیۡکَ اَنۡزَلَہٗ بِعِلۡمِہٖ ۚ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ یَشۡہَدُوۡنَ ؕ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیۡدًا﴿۱۶۶﴾ؕ

۱۶۶۔ لیکن اللہ گواہی دیتا ہے کہ جو کچھ اس نے آپ پر نازل کیا ہے وہ اپنے علم سے نازل کیا ہے اور ساتھ فرشتے بھی گواہی دیتے ہیں اور گواہی کے لیے تو اللہ ہی کافی ہے۔

166۔ اللہ نے اس وقت کے تاریک معاشرے میں ایک ایسے شخص کو اپنے علم سے مالا مال کیا جس نے کسی انسانی مکتب میں تعلیم حاصل نہیں کی۔ اس نے اللہ کی طرف سے ایک ایسا دستور حیات پیش کیا جس کی مثال پیش کرنے سے تمام انسان عاجز ہیں۔ لہٰذا یہ علم یہ قرآن اور یہ جامع نظام حیات اللہ کی جانب سے گواہی ہے کہ یہ رسول برحق ہیں۔

اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ صَدُّوۡا عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ قَدۡ ضَلُّوۡا ضَلٰلًۢا بَعِیۡدًا﴿۱۶۷﴾

۱۶۷۔ بے شک جنہوں نے کفر اختیار کیا اور (لوگوں کو) اللہ کے راستے سے روگردان کیا یقینا وہ گمراہی میں دور تک نکل گئے۔

اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ ظَلَمُوۡا لَمۡ یَکُنِ اللّٰہُ لِیَغۡفِرَ لَہُمۡ وَ لَا لِیَہۡدِیَہُمۡ طَرِیۡقًا﴿۱۶۸﴾ۙ

۱۶۸۔جنہوں نے کفر اختیار کیا اور ظلم کرتے رہے اللہ انہیں ہرگز نہیں بخشے گا اور نہ ہی ان کی راہنمائی کرے گا۔

اِلَّا طَرِیۡقَ جَہَنَّمَ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا ؕ وَ کَانَ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیۡرًا﴿۱۶۹﴾

۱۶۹۔ سوائے راہ جہنم کے جس میں وہ ابد تک ہمیشہ رہیں گے اور یہ کام اللہ کے لیے نہایت سہل ہے۔

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ قَدۡ جَآءَکُمُ الرَّسُوۡلُ بِالۡحَقِّ مِنۡ رَّبِّکُمۡ فَاٰمِنُوۡا خَیۡرًا لَّکُمۡ ؕ وَ اِنۡ تَکۡفُرُوۡا فَاِنَّ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَلِیۡمًا حَکِیۡمًا﴿۱۷۰﴾

۱۷۰۔ اے لوگو! یہ رسول تمہارے رب کی طرف سے حق لے کر تمہارے پاس آئے ہیں پس تمہارے حق میں بہتر ہے کہ تم (ان پر) ایمان لے آؤ اور اگر تم کفر اختیار کرو تو (جان لو کہ) آسمانوں اور زمین کی موجودات کا مالک اللہ ہے اور اللہ بڑا علم رکھنے والا، حکمت والا ہے۔

170۔ رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حقانیت پر دلیل دینے کے بعد روئے سخن اہل کتاب سے عامۃ الناس کی طرف ہو گئی کہ اس رسول برحق پر ایمان لانے میں خود تمہاری بھلائی ہے اگر کفر کرو تو خود تمہارا نقصان ہے تم کفر کر کے اللہ کی حکومت سے فرار نہیں کر سکتے تم چاہو یا نہ چاہو اللہ کی مملکت میں ہو۔