آیت 162
 

لٰکِنِ الرّٰسِخُوۡنَ فِی الۡعِلۡمِ مِنۡہُمۡ وَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ مِنۡ قَبۡلِکَ وَ الۡمُقِیۡمِیۡنَ الصَّلٰوۃَ وَ الۡمُؤۡتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ وَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ ؕ اُولٰٓئِکَ سَنُؤۡتِیۡہِمۡ اَجۡرًا عَظِیۡمًا﴿۱۶۲﴾٪

۱۶۲۔لیکن ان میں سے جو علم میں راسخ ہیں اور اہل ایمان ہیں وہ اس پر ایمان لاتے ہیں جو آپ پر نازل کیا گیا اور جو آپ سے پہلے نازل کیا گیا اور نماز قائم کرنے والے ہیں اور زکوٰۃ دینے والے ہیں اور اللہ اور روز آخرت پر ایمان لانے والے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جن کو عنقریب ہم اجر عظیم عطا کریں گے۔

تفسیر آیات

لٰکِنِ الرّٰسِخُوۡنَ فِی الۡعِلۡمِ: اہل کتاب کا حضور (ص) سے یہ مطالبہ کہ آپ (ص) ان کے لیے آسمان سے ایک کتاب اتار لائیں، ایک جاہلانہ اورمعاندانہ مطالبہ ہے، ورنہ جو علم میں پختہ ہیں اور ایماندار ہیں وہ ایسے نامعقول مطالبے نہیں کرتے، بلکہ وہ آپ (ص) اور سابقہ انبیاء کی تعلیمات پر ایمان لاتے ہیں۔ چونکہ انہیں معلوم ہے کہ رسالت مآب (ص) کی تعلیمات میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو انبیائے سلف کی تعلیمات و معجزات سے متصادم ہو۔

اہل تحقیق کے نزدیک وَ الۡمُقِیۡمِیۡنَ اگرچہ الرّٰسِخُوۡنَ پر عطف ہے، تاہم یہ اعنی مقدر ہونے سے منصوب ہوا ہے ۔ تفسیر قرطبی وغیرہ میں آیا ہے کہ حضرت عائشہ سے پوچھا گیا الۡمُقِیۡمِیۡنَ کیوں ہے۔ قواعد کے اعتبار سے المقیمون ہونا چاہیے تھا تو حضرت عائشہ نے جواب میں کہا: لکھنے والوں سے غلطی ہو گئی ہے۔ ہم اس کو غلطی تسلیم نہیں کرتے، چونکہ عربی زبان میں ایسے نظیریں بہت ہیں جنہیں منصوب بالمدح کہتے ہیں۔

چنانچہ یہ کہنا درست ہے مررت بزید الکریم یعنی مررت بزید اعنی الکریم ہے۔ اس کو منصوب بالمدح کہتے ہیں۔


آیت 162