اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡکٰفِرُوۡنَ حَقًّا ۚ وَ اَعۡتَدۡنَا لِلۡکٰفِرِیۡنَ عَذَابًا مُّہِیۡنًا﴿۱۵۱﴾

۱۵۱۔ ایسے لوگ حقیقی کافر ہیں اور ہم نے کافروں کے لیے ذلت آمیز عذاب تیار کر رکھا ہے۔

وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رُسُلِہٖ وَ لَمۡ یُفَرِّقُوۡا بَیۡنَ اَحَدٍ مِّنۡہُمۡ اُولٰٓئِکَ سَوۡفَ یُؤۡتِیۡہِمۡ اُجُوۡرَہُمۡ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا﴿۱۵۲﴾٪

۱۵۲۔ اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاتے ہیں اور ان میں سے کسی ایک کے درمیان کسی تفریق کے بھی قائل نہیں ہیں عنقریب اللہ ان کا اجر انہیں عطا فرمائے گا اور اللہ بڑا درگزر کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

152۔ رسولوں کے درمیان تفریق کرنے والوں کے ذکر کے بعد ان لوگوں کا تقابلی ذکر ہوا جو بلا تفریق اللہ کے تمام رسولوں پر ایمان لاتے ہیں اور تمام ادیان سماویہ کو قبول کرتے ہیں اور اللہ کی طرف سے آنے والے سب نمائندوں کو مانتے ہیں۔ وہی صحیح معنوں میں اہل ایمان ہیں اور انہی کو اجر و ثواب ملے گا۔

یَسۡـَٔلُکَ اَہۡلُ الۡکِتٰبِ اَنۡ تُنَزِّلَ عَلَیۡہِمۡ کِتٰبًا مِّنَ السَّمَآءِ فَقَدۡ سَاَلُوۡا مُوۡسٰۤی اَکۡبَرَ مِنۡ ذٰلِکَ فَقَالُوۡۤا اَرِنَا اللّٰہَ جَہۡرَۃً فَاَخَذَتۡہُمُ الصّٰعِقَۃُ بِظُلۡمِہِمۡ ۚ ثُمَّ اتَّخَذُوا الۡعِجۡلَ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَتۡہُمُ الۡبَیِّنٰتُ فَعَفَوۡنَا عَنۡ ذٰلِکَ ۚ وَ اٰتَیۡنَا مُوۡسٰی سُلۡطٰنًا مُّبِیۡنًا﴿۱۵۳﴾

۱۵۳۔ اہل کتاب آپ سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ آپ ان پر آسمان سے ایک کتاب اتار لائیں، جبکہ یہ لوگ اس سے بڑا مطالبہ موسیٰ سے کر چکے ہیں، چنانچہ انہوں نے کہا: ہمیں علانیہ طور پر اللہ دکھا دو، ان کی اسی زیادتی کی وجہ سے انہیں بجلی نے آ لیا پھر انہوں نے گوسالہ کو (اپنا معبود) بنایا جب کہ ان کے پاس واضح نشانیاں آ چکی تھیں اس پر بھی ہم نے ان سے درگزر کیا اور موسیٰ کو ہم نے واضح غلبہ عطا کیا۔

153۔ اس سورہ سے قبل نازل ہونے والے سورہ ہائے بقرہ، ہود، یونس وغیرہ میں قرآن کی اس دعوت: ”اس قرآن کے برابر ایک سورہ بنا لاؤ“ کے بعد مدینہ کے یہودیوں کا یہ مطالبہ صرف عناد اور ہٹ دھرمی پر مبنی تھا۔ اس لیے اس آیت میں یہود کی ہٹ دھرمی اور باطل پرستی کی ایک مثال پیش فرمائی۔

یہ لوگ صرف آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نامعقول مطالبہ نہیں کر رہے ہیں بلکہ یہ لوگ موسیٰ علیہ السلام سے اس سے بڑا مجرمانہ مطالبہ کر چکے ہیں۔ وہ یہ کہ ہمیں اللہ علانیہ دکھا دو۔ ظاہر ہے کہ اللہ کو انسانی نگاہوں کی محدودیت میں لانے کا مطالبہ شان الٰہی میں گستاخی تھا، جس کی فوری سزا انہیں مل گئی اور ان پر بجلی ٹوٹ پڑی۔ اگر قیامت کے دن اللہ کا دکھائی دینا ممکن ہوتا تو دنیا میں اولوالعزم پیغمبروں کو نظر آنا چاہیے۔ کیونکہ آخرت میں لوگ پیغمبروں سے زیادہ شفافیت کے مالک نہ ہوں گے۔

ان کے پاس حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذریعے واضح معجزات آنے کے باوجود یہ لوگ گوسالہ پرستی جیسی ضلالت کی طرف چلے گئے، لہٰذا قرآن جیسا معجزہ آنے کے باوجود اس قسم کا مطالبہ کرنا یہودی مزاج کے لیے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہ ان کی پرانی عادت ہے۔

فَعَفَوۡنَا عَنۡ ذٰلِکَ : گوسالہ پرستی پر جو دنیاوی سزا دی جا رہی تھی وہ معاف ہو گئی۔ سزا یہ تھی: فَاقْتُلُوْٓا اَنْفُسَكُمْ (2: 54)۔ گوسالہ پرستوں کو قتل کرو۔

وَ رَفَعۡنَا فَوۡقَہُمُ الطُّوۡرَ بِمِیۡثَاقِہِمۡ وَ قُلۡنَا لَہُمُ ادۡخُلُوا الۡبَابَ سُجَّدًا وَّ قُلۡنَا لَہُمۡ لَا تَعۡدُوۡا فِی السَّبۡتِ وَ اَخَذۡنَا مِنۡہُمۡ مِّیۡثَاقًا غَلِیۡظًا﴿۱۵۴﴾

۱۵۴۔اور ہم نے ان کے میثاق کے مطابق کوہ طور کو ان کے اوپر اٹھایا اور ہم نے انہیں حکم دیا : دروازے سے سجدہ کرتے ہوئے داخل ہو جاؤ اور ہم نے ان سے کہا: ہفتہ کے دن تجاوز نہ کرو اور (اس طرح) ہم نے ان سے ایک پختہ عہد لیا۔

فَبِمَا نَقۡضِہِمۡ مِّیۡثَاقَہُمۡ وَ کُفۡرِہِمۡ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَ قَتۡلِہِمُ الۡاَنۡۢبِیَآءَ بِغَیۡرِ حَقٍّ وَّ قَوۡلِہِمۡ قُلُوۡبُنَا غُلۡفٌ ؕ بَلۡ طَبَعَ اللّٰہُ عَلَیۡہَا بِکُفۡرِہِمۡ فَلَا یُؤۡمِنُوۡنَ اِلَّا قَلِیۡلًا﴿۱۵۵﴾۪

۱۵۵۔ پھر ان کے اپنے میثاق کی خلاف ورزی، اللہ کی آیات کا انکار کرنے اور انبیاء کو ناحق قتل کرنے اور ان کے اس قول کے سبب کہ ہمارے دل غلاف میں محفوظ ہیں (اللہ نے انہیں سزا دی، ان کے دل غلاف میں محفوظ نہیں) بلکہ ان کے کفر کے سبب اللہ نے ان پر مہر لگا دی ہے اسی وجہ سے یہ کم ہی ایمان لاتے ہیں۔

وَّ بِکُفۡرِہِمۡ وَ قَوۡلِہِمۡ عَلٰی مَرۡیَمَ بُہۡتَانًا عَظِیۡمًا﴿۱۵۶﴾ۙ

۱۵۶۔ نیز ان کے کفر کے سبب اور مریم پر عظیم بہتان باندھنے کے سبب۔

وَّ قَوۡلِہِمۡ اِنَّا قَتَلۡنَا الۡمَسِیۡحَ عِیۡسَی ابۡنَ مَرۡیَمَ رَسُوۡلَ اللّٰہِ ۚ وَ مَا قَتَلُوۡہُ وَ مَا صَلَبُوۡہُ وَ لٰکِنۡ شُبِّہَ لَہُمۡ ؕ وَ اِنَّ الَّذِیۡنَ اخۡتَلَفُوۡا فِیۡہِ لَفِیۡ شَکٍّ مِّنۡہُ ؕ مَا لَہُمۡ بِہٖ مِنۡ عِلۡمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ۚ وَ مَا قَتَلُوۡہُ یَقِیۡنًۢا﴿۱۵۷﴾ۙ

۱۵۷۔ اور ان کے اس قول کے سبب کہ ہم نے اللہ کے رسول مسیح بن مریم کو قتل کیا ہے، جبکہ فی الحقیقت انہوں نے نہ انہیں قتل کیا اور نہ سولی چڑھایا بلکہ( دوسرے کو) ان کے لیے شبیہ بنا دیا گیا تھا اور جن لوگوں نے اس میں اختلاف کیا وہ اس میں شک میں مبتلا ہیں،ظن کی پیروی کے علاوہ انہیں اس بارے میں کوئی علم نہیں اور انہوں نے یقینا مسیح کو قتل نہیں کیا۔

بَلۡ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیۡہِ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَزِیۡزًا حَکِیۡمًا﴿۱۵۸﴾

۱۵۸۔ بلکہ اللہ نے انہیں اپنی طرف اٹھایا اور بے شک اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔

158۔موجودہ مسیحیت کا بنیادی عقیدہ ”نظریۂ کفارہ“ ہے کہ ابن اللہ نے یا خود اللہ نے سولی چڑھ کر اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے سب گنہگاروں کے گناہوں کا کفارہ ادا کر دیا۔ یعنی بجائے اس کے کہ گناہ کا ارتکاب کرنے والے کفارہ ادا کرتے خود اللہ نے اپنی جان کا نذرانہ دے کر کفارہ ادا کیا (البتہ اپنے بیٹے کی شکل میں آ کر جو نظریہ وحدت در تثلیث کے تحت خود اللہ ہے) یہودی اور مسیحی دونوں اتفاق کرتے ہیں کہ مسیح علیہ السلام قتل ہو گئے۔ اسلام کا مؤقف یہ ہے کہ مسیح علیہ السلام قتل نہیں ہوئے: ٭خود مسیحیوں کے ایک قدیم فرقے ”سلیدیہ“ کا بھی یہی نظریہ ہے کہ یسوع کی جگہ اشتباہاً ”شمعون کرینی“ کو سولی چڑھا دیا گیا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جسم و روح سمیت آسمان پر اٹھا لیا گیا۔٭ حضرت مسیح علیہ السلام کو سزائے موت سلطنت روم کی عدالت سے ملی۔رومی اجنبی سپاہی مسیح علیہ السلام کو پہچانتے نہیں تھے، اس لیے ایک منافق ”یہودا“ کا سہارا لیا گیا۔ (انجیل 18:3) جب یہ پلٹن اور پیادے وہاں پہنچے تو یسوع نے ان سے پھر پوچھا: تم کسے ڈھونڈ رہے ہو؟ وہ بولے: یسوع ناصری کو۔ یسوع نے جواب دیا: میں تم سے کہ چکا ہوں کہ میں ہی یسوع ہوں۔ اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ رومی سپاہیوں کو مسیح علیہ السلام کی شناخت نہیں تھی۔ ٭انجیل برنابا میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان کی طرف زندہ اٹھانے کا واقعہ پوری صراحت کے ساتھ درج ہے۔

وَ اِنۡ مِّنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ اِلَّا لَیُؤۡمِنَنَّ بِہٖ قَبۡلَ مَوۡتِہٖ ۚ وَ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ یَکُوۡنُ عَلَیۡہِمۡ شَہِیۡدًا﴿۱۵۹﴾ۚ

۱۵۹۔ اور اہل کتاب میں کوئی ایسا نہیں جو ان کی موت سے پہلے ان پر ایمان نہ لائے اور قیامت کے دن وہ (مسیح) ان پر گواہ ہوں گے۔

159۔ یعنی حضرت عیسی علیہ السلام کی موت سے پہلے یہود بھی ان کی نبوت پر ایمان لائیں گے اور نصاریٰ بھی ان کے نبی ہونے، ابن نہ ہونے پر ایمان لائیں گے۔ جو اہل کتاب نزول عیسیٰ علیہ السلام سے پہلے مر جائیں گے، وہ مرنے کے بعد ایمان لائیں گے اور نزول عیسیٰ علیہ السلام کے وقت کے لوگ بھی ان پر ایمان لائیں گے۔ صحیح بخاری باب نزول عیسیٰ میں آیا ہے: کیف انتم اذا نزل بن مریم فیکم و امامکم منکم۔ تمہارا اس وقت کیا حال ہو گا جب ابن مریم نزول کریں گے تو تمہارا امام تم میں سے ہو گا۔ امام مہدی علیہ السلام کی طرف اشارہ ہے۔

فَبِظُلۡمٍ مِّنَ الَّذِیۡنَ ہَادُوۡا حَرَّمۡنَا عَلَیۡہِمۡ طَیِّبٰتٍ اُحِلَّتۡ لَہُمۡ وَ بِصَدِّہِمۡ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ کَثِیۡرًا﴿۱۶۰﴾ۙ

۱۶۰۔یہود کے ظلم اور راہ خدا سے بہت روکنے کے سبب بہت سی پاک چیزیں جو (پہلے) ان پر حلال تھیں ہم نے ان پر حرام کر دیں۔