یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ لَا تَغۡلُوۡا فِیۡ دِیۡنِکُمۡ وَ لَا تَقُوۡلُوۡا عَلَی اللّٰہِ اِلَّا الۡحَقَّ ؕ اِنَّمَا الۡمَسِیۡحُ عِیۡسَی ابۡنُ مَرۡیَمَ رَسُوۡلُ اللّٰہِ وَ کَلِمَتُہٗ ۚ اَلۡقٰہَاۤ اِلٰی مَرۡیَمَ وَ رُوۡحٌ مِّنۡہُ ۫ فَاٰمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رُسُلِہٖ ۚ۟ وَ لَا تَقُوۡلُوۡا ثَلٰثَۃٌ ؕ اِنۡتَہُوۡا خَیۡرًا لَّکُمۡ ؕ اِنَّمَا اللّٰہُ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ ؕ سُبۡحٰنَہٗۤ اَنۡ یَّکُوۡنَ لَہٗ وَلَدٌ ۘ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ وَکِیۡلًا﴿۱۷۱﴾٪

۱۷۱۔ اے اہل کتاب ! اپنے دین میں غلو سے کام نہ لو اور اللہ کے بارے میں حق بات کے سوا کچھ نہ کہو،بے شک مسیح عیسیٰ بن مریم تو اللہ کے رسول اور اس کا کلمہ ہیں جو اللہ نے مریم تک پہنچا دیا اور اس کی طرف سے وہ ایک روح ہیں، لہٰذا اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لے آؤ اور یہ نہ کہو کہ تین ہیں، اس سے باز آ جاؤ اس میں تمہاری بہتری ہے، یقینا اللہ تو بس ایک ہی معبود ہے، اس کی ذات اس سے پاک ہے کہ اس کا کوئی بیٹا ہو، آسمانوں اور زمین میں موجود ساری چیزیں اسی کی ہیں اور کارسازی کے لیے اللہ کافی ہے۔

171۔ حضرت مسیح کے بارے میں قرآن کا مؤقف یہ ہے کہ حضرت مسیح اللہ کا کلمہ اور روح ہیں۔ جب اللہ ظاہری علل و اسباب سے ہٹ کر ایک تخلیقی عمل صرف اپنے ارادے سے انجام دیتا ہے تو اسے کلمہ کہتے ہیں۔ مثلًا ًحضرت عیسیٰ علیہ السلام کی خلقت کے لیے باپ کی جگہ کلمہ کُن علت ہے اس لیے انہیں کلمہ کہتے ہیں۔ وَ رُوۡحٌ مِّنۡہُ ، اللہ کی روح یعنی یہ نسبت صرف شرف کے لیے ہے، جیسے بیت اللّہ، ناقۃ اللّہ وغیرہ۔

وَ لَا تَقُوۡلُوۡا ثَلٰثَۃٌ : مسیحی، اناجیل کی صریح تعلیمات کی بنا پر خدائے واحد کو مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خدا ایک ہے۔ دوسری طرف وہ روح القدس اور مسیح علیہ السلام کو بھی خدا مانتے ہیں۔ اس طرح وہ تین خداؤں کے بھی قائل ہیں۔ وہ توحید کے ساتھ تثلیث اور تثلیث کے ساتھ توحید کا عقیدہ رکھتے ہیں اور لاینحل تضادات کے ایک سلسلے میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ خدا تین بھی ہیں اور ایک بھی اور اس کی تشریح میں ان میں فرقہ بندیوں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔ کہتے ہیں اللہ جوہر ہونے کے اعتبار سے ایک ہے اور اقانیم ہونے کے اعتبار سے تین۔ وہ ”وجود“، ”حیات“ اور ”علم“ کو اقانیم کہتے ہیں اور وجود کو باپ، علم کو بیٹا اور حیات کو روح القدس کہتے ہیں۔ آگے وہ جوہر اور اقانیم کے درمیان تعلق کی نوعیت میں اختلاف کرتے ہیں اور ایک دوسرے کی تکفیر کرتے ہیں۔

لَنۡ یَّسۡتَنۡکِفَ الۡمَسِیۡحُ اَنۡ یَّکُوۡنَ عَبۡدًا لِّلّٰہِ وَ لَا الۡمَلٰٓئِکَۃُ الۡمُقَرَّبُوۡنَ ؕ وَ مَنۡ یَّسۡتَنۡکِفۡ عَنۡ عِبَادَتِہٖ وَ یَسۡتَکۡبِرۡ فَسَیَحۡشُرُہُمۡ اِلَیۡہِ جَمِیۡعًا﴿۱۷۲﴾

۱۷۲۔ مسیح نے کبھی بھی اللہ کی بندگی کو عار نہیں سمجھا اور نہ ہی مقرب فرشتے (اسے عار سمجھتے ہیں) اور جو اللہ کی بندگی کو عار سمجھتا ہے اور تکبر کرتا ہے اللہ ان سب کو(ایک دن) اپنے سامنے جمع کرے گا۔

172۔ مسیحی تعلیمات اور اناجیل کی آیات سے یہ بات واضح ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ کی عبادت کرتے تھے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام خود خدا نہیں ہیں اور نہ خدا کا حصہ ہیں۔ کیونکہ خدا یا خدا کا کوئی حصہ خود اپنی عبادت نہیں کر سکتا۔ بعض مشرکین کا یہ خیال تھا کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں، اس لیے ضمناً یہاں اس مشرکانہ نظریے کی رد کے طور پر فرشتوں کی عبادت کا بھی ذکر کیا گیا۔

فَاَمَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَیُوَفِّیۡہِمۡ اُجُوۡرَہُمۡ وَ یَزِیۡدُہُمۡ مِّنۡ فَضۡلِہٖ ۚ وَ اَمَّا الَّذِیۡنَ اسۡتَنۡکَفُوۡا وَ اسۡتَکۡبَرُوۡا فَیُعَذِّبُہُمۡ عَذَابًا اَلِیۡمًا ۬ۙ وَّ لَا یَجِدُوۡنَ لَہُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ وَلِیًّا وَّ لَا نَصِیۡرًا﴿۱۷۳﴾

۱۷۳۔پھر ایمان لانے والوں اور نیک اعمال بجا لانے والوں کو اللہ ان کا پورا اجر دے گا اور انہیں اپنے فضل سے مزید عطا کرے گا اور جن لوگوں نے (عبادت کو) عار سمجھا اور تکبر کیا انہیں اللہ دردناک عذاب دے گا اور وہ اپنے لیے اللہ کے سوا نہ کوئی سرپرست اور نہ کوئی مددگار پائیں گے۔

173۔اس آیت میں ایک نکتہ قابل توجہ ہے۔ وہ یہ کہ ایمان و عمل صالح کے پورے پورے اجر و ثواب کے علاوہ یہ خوشخبری اور نوید رحمانی سنائی گئی: وَ یَزِیۡدُہُمۡ مِّنۡ فَضۡلِہٖ اپنے فضل سے ان کو مزید اجر و ثواب عنایت فرمائے گا۔ مزید کس قدر اجر عطا فرمائے گا؟ اس کی کوئی حد بیان نہیں فرمائی۔

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ قَدۡ جَآءَکُمۡ بُرۡہَانٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکُمۡ نُوۡرًا مُّبِیۡنًا﴿۱۷۴﴾

۱۷۴۔ اے لوگو! تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس واضح دلیل آگئی ہے اور ہم نے تمہاری طرف روشن نور نازل کیا ہے۔

174۔ بُرۡہَانٌ : دلیل و حجت میں سے اس دلیل کو برہان کہتے ہیں جو ناقابل تردید ہو۔

یہود و نصاریٰ اور مشرکین پر رسالتمآب صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت کی حقانیت پر روشنی ڈالنے کے بعد پوری انسانیت سے خطاب فرمایا: تمہاری طرف اللہ کی جانب سے ایک ناقابل تردید دلیل آ گئی ہے۔ برہان سے مراد رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذات گرامی ہی ہو سکتی ہے۔کیونکہ محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک ایسے معاشرے میں آنکھ کھولی جو علم و تمدن سے بالکل بے بہرہ تھا۔ اس زمانے میں یونان، مصر، عراق، ایران اور ہندوستان میں علمی مراکز موجود تھے اور تمدن بھی تھا، لیکن حجاز تو تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ اس معاشرے میں ایک شخص، ایک ایسا انسان ساز دستور حیات لے کر آتا ہے جس کی مثال پیش کرنے سے تمام انسان قاصر ہیں۔ یہ ذات خود اپنی جگہ ایک برہان ہے۔ اور نور مبین سے مراد قرآن مجید ہے۔ جس نے انسانیت کو جہالت کی تاریکی سے نکال کر علم و تمدن کی روشن دنیا سے متعارف کرایا اور ساتھ روحانی امن و سکون کے عوامل سے روشناس کرایا۔

فَاَمَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ اعۡتَصَمُوۡا بِہٖ فَسَیُدۡخِلُہُمۡ فِیۡ رَحۡمَۃٍ مِّنۡہُ وَ فَضۡلٍ ۙ وَّ یَہۡدِیۡہِمۡ اِلَیۡہِ صِرَاطًا مُّسۡتَقِیۡمًا﴿۱۷۵﴾ؕ

۱۷۵۔لہٰذا جو اللہ پر ایمان لے آئیں اور اس سے متمسک رہیں تو وہ جلد ہی انہیں اپنی رحمت اور فضل میں داخل کرے گا اور انہیں اپنی طرف آنے کا سیدھا راستہ دکھائے گا ۔

یَسۡتَفۡتُوۡنَکَ ؕ قُلِ اللّٰہُ یُفۡتِیۡکُمۡ فِی الۡکَلٰلَۃِ ؕ اِنِ امۡرُؤٌا ہَلَکَ لَیۡسَ لَہٗ وَلَدٌ وَّ لَہٗۤ اُخۡتٌ فَلَہَا نِصۡفُ مَا تَرَکَ ۚ وَ ہُوَ یَرِثُہَاۤ اِنۡ لَّمۡ یَکُنۡ لَّہَا وَلَدٌ ؕ فَاِنۡ کَانَتَا اثۡنَتَیۡنِ فَلَہُمَا الثُّلُثٰنِ مِمَّا تَرَکَ ؕ وَ اِنۡ کَانُوۡۤا اِخۡوَۃً رِّجَالًا وَّ نِسَآءً فَلِلذَّکَرِ مِثۡلُ حَظِّ الۡاُنۡثَیَیۡنِ ؕ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمۡ اَنۡ تَضِلُّوۡا ؕ وَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ﴿۱۷۶﴾٪

۱۷۶۔لوگ آپ سے(کلالہ کے بارے میں) دریافت کرتے ہیں، ان سے کہدیجئے : اللہ کلالہ کے بارے میں تمہیں یہ حکم دیتا ہے: اگر کوئی مرد مر جائے اور اس کی اولاد نہ ہو اور اس کی ایک بہن ہو تو اسے (بھائی کے) ترکے سے نصف حصہ ملے گا اور اگر بہن (مر جائے اور اس) کی کوئی اولاد نہ ہو تو بھائی کو بہن کا پورا ترکہ ملے گا اور اگر بہنیں دو ہوں تو دونوں کو (بھائی کے) ترکے سے دو تہائی ملے گا اور اگر بھائی بہن دونوں ہیں تو مرد کا حصہ دو عورتوں کے حصے کے برابر ہو گا، اللہ تمہارے لیے (احکام) بیان فرماتا ہے تاکہ تم گمراہ نہ ہو جاؤ اور اللہ ہر چیز کا پورا علم رکھتا ہے۔

176۔ الۡکَلٰلَۃِ : باپ اور اولاد کے علاوہ جو وارث ہو وہ کلالہ ہے۔ مرنے والے کے پسماندگان میں صرف ایک بہن ہو تو جو باپ کی طرف سے یا ماں باپ دونوں کی طرف سے ہو تو اس بہن کو نصف حصہ فرضاً ملے گا، باقی حصہ فقہ جعفری کے مطابق اسی بہن کو رداً ملے گا۔ بعض اہل سنت کے مطابق باقی حصہ بیت المال میں جمع کیا جائے گا۔ تعصیب یعنی قریب کی موجودگی میں بعید کو وارث بنانا۔ ظاہر قرآن کے خلاف ہے۔ تفصیل کے لیے ہماری تفسیر کا مطالعہ کریں۔