اتمام حجت کا قانون


رُسُلًا مُّبَشِّرِیۡنَ وَ مُنۡذِرِیۡنَ لِئَلَّا یَکُوۡنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّۃٌۢ بَعۡدَ الرُّسُلِ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَزِیۡزًا حَکِیۡمًا﴿۱۶۵﴾

۱۶۵۔ (یہ سب) بشارت دینے والے اور تنبیہ کرنے والے رسول بنا کر بھیجے گئے تھے تاکہ ان رسولوں کے بعد لوگوں کے لیے اللہ کے سامنے کسی حجت کی گنجائش نہ رہے اور اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔

165۔ اللہ تعالیٰ حجت پوری کرنے سے پہلے کسی سے مؤاخذہ نہیں کرتا اور یہ ایک عقلی قاعدہ ہے کہ کسی بات کا حکم جاری کیے بغیر اس کے بارے میں بازپرس نہیں ہو سکتی۔ اگر خادم سے یہ نہ کہا جائے کہ پانی دے دو تو پانی نہ دینے پر اس سے بازپرس نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ نبوت کی ضرورت اسی اصول اور قاعدے کے تحت ہے۔ اگر انبیاء کے ذریعے حجت پوری نہ ہوئی ہوتی تو لوگوں کو یہ بات کرنے کا حق حاصل ہو جاتا: رَبَّنَا لَوْ لَآ اَرْسَلْتَ اِلَيْنَا رَسُوْلًا فَنَتَّبِعَ اٰيٰتِكَ ۔ (طٰہٰ: 134) ہمارے پروردگار! تو نے ہماری طرف رسول کیوں نہیں بھیجا کہ ہم تیرے احکام کی پیروی کرتے؟