آیت 165
 

رُسُلًا مُّبَشِّرِیۡنَ وَ مُنۡذِرِیۡنَ لِئَلَّا یَکُوۡنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّۃٌۢ بَعۡدَ الرُّسُلِ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَزِیۡزًا حَکِیۡمًا﴿۱۶۵﴾

۱۶۵۔ (یہ سب) بشارت دینے والے اور تنبیہ کرنے والے رسول بنا کر بھیجے گئے تھے تاکہ ان رسولوں کے بعد لوگوں کے لیے اللہ کے سامنے کسی حجت کی گنجائش نہ رہے اور اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ رُسُلًا مُّبَشِّرِیۡنَ: اللہ تعالیٰ حجت پوری کرنے سے پہلے کسی کا مواخذہ نہیں کرتا اور ہدایت و رہنمائی فراہم کرنے سے پہلے عذاب نہیں دیتا۔ فرمایا:

اُخۡرٰی ؕ وَ مَا کُنَّا مُعَذِّبِیۡنَ حَتّٰی نَبۡعَثَ رَسُوۡلًا﴿﴾ (۱۷ اسراء: ۱۵)

اور جب تک ہم کسی رسول کو مبعوث نہ کریں عذاب دینے والے نہیں ہیں۔

اگرا نسان کی ہدایت انبیاء کے ذریعے نہ ہوئی ہوتی تو عقلاً انسانوں کو یہ حجت پیش کرنے کا حق پہنچتا تھا:

رَبَّنَا لَوۡ لَاۤ اَرۡسَلۡتَ اِلَیۡنَا رَسُوۡلًا فَنَتَّبِعَ اٰیٰتِکَ مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ نَّذِلَّ وَ نَخۡزٰی ﴿﴾ (۲۰ طہ: ۱۳۴)

ہمارے پروردگار! تو نے ہماری طرف کسی رسول کو کیوں نہیں بھیجاکہ ذلت و رسوائی سے پہلے ہی ہم تیری آیات کی اتباع کر لیتے؟

عقلی کلیہ: یہ ایک عقلی مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی حکم کے بیان کرنے سے پہلے کہ ”فلاں امر کا بجا لانا ضروری ہے یا اس امر کے ارتکاب سے پرہیز کرنا چاہیے“، اس کے ترک کرنے پر مؤاخذہ کرنا درست نہیں ہے۔ باپ نے بیٹے کو بتایا نہیں کہ سفر پر جانا ہے تیاری کرو تو تیاری نہ کرنے پر اس کا مؤاخذہ نہیں ہو سکتا۔ اس کلیے سے معلوم ہوا کہ انبیاء کا بھیجنا عقلاً ضروری ہے اور ہدایت بشر کے لیے نبوت کی ضرورت اس عقلی کلیے پر مبنی ہے۔ رہا یہ مسئلہ کہ انسانوں کی ہدایت کے لیے عقل کافی نہیں ہے بلکہ انبیاء کی ضرورت ہے، یہ بھی اسی آیت سے ثابت ہے لیکن اس آیت سے عقل سے بے نیازی ثابت نہیں ہوتی بلکہ اس آیت سے ایک عقلی کلیے اور مسلمہ حقیقت کی تائید ہوتی ہے۔

اہم نکات

۱۔ رسولوں کے ذریعے حجت پوری ہونے کے بعد کوئی عذر باقی نہیں رہتا۔

۲۔ جس تک اللہ کا پیغام نہ پہنچا ہو اور اس میں بندے کی کوتاہی نہ ہو تو اس کا مؤاخذہ نہ ہوگا۔


آیت 165