آیات 167 - 169
 

اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ صَدُّوۡا عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ قَدۡ ضَلُّوۡا ضَلٰلًۢا بَعِیۡدًا﴿۱۶۷﴾

۱۶۷۔ بے شک جنہوں نے کفر اختیار کیا اور (لوگوں کو) اللہ کے راستے سے روگردان کیا یقینا وہ گمراہی میں دور تک نکل گئے۔

اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ ظَلَمُوۡا لَمۡ یَکُنِ اللّٰہُ لِیَغۡفِرَ لَہُمۡ وَ لَا لِیَہۡدِیَہُمۡ طَرِیۡقًا﴿۱۶۸﴾ۙ

۱۶۸۔جنہوں نے کفر اختیار کیا اور ظلم کرتے رہے اللہ انہیں ہرگز نہیں بخشے گا اور نہ ہی ان کی راہنمائی کرے گا۔

اِلَّا طَرِیۡقَ جَہَنَّمَ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا ؕ وَ کَانَ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیۡرًا﴿۱۶۹﴾

۱۶۹۔ سوائے راہ جہنم کے جس میں وہ ابد تک ہمیشہ رہیں گے اور یہ کام اللہ کے لیے نہایت سہل ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ صَدُّوۡا عَنۡ سَبِیۡلِ: یہ لوگ صرف کفر پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ کفر کرنے کے بعد ہدایت کی طرف جانے والوں کے لیے راستہ روکتے ہیں۔ صد کا مضارع یصِدّ بکسر الصاد ہے تو معنی لازم اور رکنے کے معنوں ہو گا اور اگر صدّ کا مضارع یَصُدّ بضم الصاد ہے تو متعدی روکنے کے معنوں میں ہو گا۔ یہاں صدّ، یَصُدُّ روکنے کے معنوں میں ہو گا۔

۲۔ ضَلٰلًۢا بَعِیۡدًا: دور و نزدیک کی مسافت میں ہوتا ہے، مگر یہاں شدید گمراہی کی تعبیر کے لیے بطور استعارہ بعید کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔

جب اللہ تعالیٰ نے اپنے علم سے مالا مال کر کے ایک ہستی کو انسانی سعادت کے لیے ایک جامع نظام حیات عطا فرمایا تو وہ لوگ جو ازروئے عصبیت اس رسولؐ کو نہ مانیں اور کفر اختیار کریں اور اس پر اکتفا نہ کریں بلکہ راہ خدا میں رکاوٹیں کھڑی کریں، ایسے لوگ اللہ کی مغفرت اور اللہ کی رحمت و ہدایت کے اہل نہیں ہیں بلکہ یہ لوگ جہنم کے سزاوار ہیں، جہاں وہ الی الابد رہیں گے۔

۳۔ اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ ظَلَمُوۡا: کفر اختیار کرنے کے بعد مسلمانوں پر ظلم و ستم کرنے والوں کے لیے مغفرت نہیں ہے۔ چونکہ مغفرت کی نوبت اس وقت آ سکتی ہے کہ وہ کفر اور ظلم کو ترک کر کے ایمان و انصاف کی طرف آئیں لیکن یہ لوگ کفر و ستم میں مشغول ہیں۔ حالت کفر و ظلم میں مغفرت کی نوبت نہیں آتی۔

۴۔ وَ لَا لِیَہۡدِیَہُمۡ طَرِیۡقًا: نہ ہی یہ لوگ ہدایت کے قابل ہیں کہ انہیں راہ حق کی ہدایت دی جائے۔ جس راہ کی ہدایت کے لیے اہل ہیں، وہ جہنم کا راستہ ہے۔ اسی راستے پر چلنے دیا جائے گا۔

۵۔ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا: سوال اٹھایا جاتا ہے کہ ایک مختصر وقت کے جرم کی پاداش ہمیشہ کی ابدی سزا؟

جواب: اول تو اس نے جرم ختم نہیں کیا، خود ختم ہو گیا۔ ثانیاً اس کا جرم مٹ نہیں جاتا۔ جرم کا عمل انرجی کی شکل میں تا ابد رہتا ہے جو اسے تا ابد اذیت دیتا رہے گا۔ انسان کا عمل انرجی کی شکل میں ہمیشہ باقی رہتا ہے۔ نیکی اس کا ساتھ نہیں چھوڑتی اور برائی اس جان نہیں چھوڑے گی۔ ثالثاً سزا اور جرم میں مدت کو دخل نہیں ہے۔ ناحق قتل پر ایک منٹ لگا ہو گا، سزا عمر قید کی مل جاتی ہے۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے۔

ان الذین کفروا و ظلموا (آل محمد حقھم) لم یکن اللہ لیغفر لہم۔ (الکافی ۱ : ۴۲۴)

جن لوگوں نے کفر اختیار کیا اور آل محمد کے حقوق میں ظلم کیا، اللہ انہیں ہرگز نہیں بخشے گا۔

واضح رہے اس روایت میں ( آل محمد حقھم ) ظلموا کی تفسیر ہے۔ یہ جملہ آیت کا حصہ نہیں ہے۔


آیات 167 - 169