آیات 155 - 161
 

فَبِمَا نَقۡضِہِمۡ مِّیۡثَاقَہُمۡ وَ کُفۡرِہِمۡ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَ قَتۡلِہِمُ الۡاَنۡۢبِیَآءَ بِغَیۡرِ حَقٍّ وَّ قَوۡلِہِمۡ قُلُوۡبُنَا غُلۡفٌ ؕ بَلۡ طَبَعَ اللّٰہُ عَلَیۡہَا بِکُفۡرِہِمۡ فَلَا یُؤۡمِنُوۡنَ اِلَّا قَلِیۡلًا﴿۱۵۵﴾۪

۱۵۵۔ پھر ان کے اپنے میثاق کی خلاف ورزی، اللہ کی آیات کا انکار کرنے اور انبیاء کو ناحق قتل کرنے اور ان کے اس قول کے سبب کہ ہمارے دل غلاف میں محفوظ ہیں (اللہ نے انہیں سزا دی، ان کے دل غلاف میں محفوظ نہیں) بلکہ ان کے کفر کے سبب اللہ نے ان پر مہر لگا دی ہے اسی وجہ سے یہ کم ہی ایمان لاتے ہیں۔

وَّ بِکُفۡرِہِمۡ وَ قَوۡلِہِمۡ عَلٰی مَرۡیَمَ بُہۡتَانًا عَظِیۡمًا﴿۱۵۶﴾ۙ

۱۵۶۔ نیز ان کے کفر کے سبب اور مریم پر عظیم بہتان باندھنے کے سبب۔

وَّ قَوۡلِہِمۡ اِنَّا قَتَلۡنَا الۡمَسِیۡحَ عِیۡسَی ابۡنَ مَرۡیَمَ رَسُوۡلَ اللّٰہِ ۚ وَ مَا قَتَلُوۡہُ وَ مَا صَلَبُوۡہُ وَ لٰکِنۡ شُبِّہَ لَہُمۡ ؕ وَ اِنَّ الَّذِیۡنَ اخۡتَلَفُوۡا فِیۡہِ لَفِیۡ شَکٍّ مِّنۡہُ ؕ مَا لَہُمۡ بِہٖ مِنۡ عِلۡمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ۚ وَ مَا قَتَلُوۡہُ یَقِیۡنًۢا﴿۱۵۷﴾ۙ

۱۵۷۔ اور ان کے اس قول کے سبب کہ ہم نے اللہ کے رسول مسیح بن مریم کو قتل کیا ہے، جبکہ فی الحقیقت انہوں نے نہ انہیں قتل کیا اور نہ سولی چڑھایا بلکہ( دوسرے کو) ان کے لیے شبیہ بنا دیا گیا تھا اور جن لوگوں نے اس میں اختلاف کیا وہ اس میں شک میں مبتلا ہیں،ظن کی پیروی کے علاوہ انہیں اس بارے میں کوئی علم نہیں اور انہوں نے یقینا مسیح کو قتل نہیں کیا۔

بَلۡ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیۡہِ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَزِیۡزًا حَکِیۡمًا﴿۱۵۸﴾

۱۵۸۔ بلکہ اللہ نے انہیں اپنی طرف اٹھایا اور بے شک اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔

وَ اِنۡ مِّنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ اِلَّا لَیُؤۡمِنَنَّ بِہٖ قَبۡلَ مَوۡتِہٖ ۚ وَ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ یَکُوۡنُ عَلَیۡہِمۡ شَہِیۡدًا﴿۱۵۹﴾ۚ

۱۵۹۔ اور اہل کتاب میں کوئی ایسا نہیں جو ان کی موت سے پہلے ان پر ایمان نہ لائے اور قیامت کے دن وہ (مسیح) ان پر گواہ ہوں گے۔

فَبِظُلۡمٍ مِّنَ الَّذِیۡنَ ہَادُوۡا حَرَّمۡنَا عَلَیۡہِمۡ طَیِّبٰتٍ اُحِلَّتۡ لَہُمۡ وَ بِصَدِّہِمۡ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ کَثِیۡرًا﴿۱۶۰﴾ۙ

۱۶۰۔یہود کے ظلم اور راہ خدا سے بہت روکنے کے سبب بہت سی پاک چیزیں جو (پہلے) ان پر حلال تھیں ہم نے ان پر حرام کر دیں۔

وَّ اَخۡذِہِمُ الرِّبٰوا وَ قَدۡ نُہُوۡا عَنۡہُ وَ اَکۡلِہِمۡ اَمۡوَالَ النَّاسِ بِالۡبَاطِلِ ؕ وَ اَعۡتَدۡنَا لِلۡکٰفِرِیۡنَ مِنۡہُمۡ عَذَابًا اَلِیۡمًا﴿۱۶۱﴾

۱۶۱۔ اور اس سبب سے بھی کہ وہ سود خوری کرتے تھے جبکہ اس سے انہیں منع کیا گیا تھا اور لوگوں کا مال ناحق کھانے کے سبب سے بھی اور ان میں سے جو کافر ہیں ان کے لیے ہم نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔

تفسیر آیات

ان آیات کا ربط کلام جملہ ہائے معترضہ کو نکالنے کے بعد اس طرح بنتا ہے کہ اللہ فرماتا ہے:

اس سبب سے کہ یہود نے عہد شکنی کی، آیات کا انکار کیا اور کہا کہ ہمارے دل غلاف میں محفوظ ہیں کہ ان دلوں پر غیر یہودی تعلیمات کا اثر نہ ہو گا اور حضرت مریم پر عظیم بہتان باندھا اور کہا کہ ہم نے مسیح کو قتل کیا اور ظلم کا ارتکاب کیا۔ اکثر لوگوں کو راہ خدا سے روکا۔ منع کرنے کے باوجود سود خوری کی۔ لوگوں کا مال ناحق کھایا۔ ان تمام باتوں کے سبب سے ہم نے ان پر بہت سی پاک چیزیں حرام کر دیں اور ان کے لیے ایک دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔

موجودہ مسیحیت کا اصل اور بنیادی عقیدہ ’’نظریۂ کفارہ‘‘ ہے کہ ابن اللہ نے یا خود اللہ نے سولی چڑھ کر، اپنی جان کا نذرانہ دے کر، تمام مخلوق کے گناہوں کا کفارہ ادا کر دیا۔ یعنی بجائے اس کے کہ گناہ کا ارتکاب کرنے والے کفارہ ادا کرتے، خود اللہ نے اپنی جان کا نذرانہ دے کر کفارہ ادا کر دیا۔ البتہ اپنے بیٹے کی شکل میں آکر، جو نظریہ وحدت در تثلیث کے تحت خود اللہ ہے۔

حضرت مسیح (ع) کے قتل پر یہود و نصاریٰ دونوں کا اتفاق ہے۔ یہود اس قتل کو اہانت کے طور پر پیش کرتے ہیں اور مسیحی اس قتل کو عظمت مسیح (ع) کی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

اسلام کا مؤقف ان سب سے جدا ہے کہ حضرت مسیح (ع) قتل ہوئے اور نہ سولی چڑھائے گئے، بلکہ یہود کو دھوکا ہوا اور اشتباہ میں کسی دوسرے کو قتل کیا۔

وَ لٰکِنۡ شُبِّہَ لَہُمۡ: لیکن دوسرے کو ان کے لیے شبیہ بنا دیا گیا۔ قرآن و احادیث میں اس کی تفصیل نہیں ملتی کہ کسے شبیہ بنایا گیا۔ تاہم بعض تاریخی حقائق کی روشنی میں یہ بات درست معلوم ہوتی ہے کہ مسیح (ع) کے بارے میں قرآنی مؤقف درست ہے:

i۔ مسیحیوں کے ایک قدیم فرقے سلیدیہ کا بھی یہی نظریہ ہے کہ یسوع کی جگہ اشتباہاً شمعون کرینی کو سولی پر چڑھا دیا گیا اور حضرت عیسیٰ (ع) کو جسم و روح سمیت آسمان پر اٹھا لیا گیا۔

ii۔ حضرت مسیح (ع) کو سزائے موت سلطنت روم کی عدالت سے ملی۔ رومی اجنبی سپاہی مسیح (ع) کو پہچانتے نہیں تھے، اس لیے ایک منافق یہوداہ کا سہارا لیا گیا۔ چنانچہ انجیل ۱۸ : ۳۔۸ میں آیا ہے :

جب یہ پلٹن اور پیادے وہاں پہنچے تو یسوع نے ان سے پھر پوچھا کہ تم کسے ڈھونڈتے ہو؟ وہ بولے یسوع ناصری کو۔ یسوع نے جواب دیا: میں تم سے کہ چکا ہوں کہ میں ہی ہوں۔

اس متن میں ’’پھر پوچھا‘‘ اور ’’میں تم سے کہ چکا ہوں‘‘ کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ رومی سپاہیوں کو مسیح (ع) کی شناخت میں کافی دقت پیش آ رہی تھی اور بار بار کہنے کے باوجود کہ میں ہی یسوع ہوں وہ باور نہیں کرتے تھے۔

iii۔ اناجیل لوقا، مرقس اور متیٰ سب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حضرت مسیح (ع) اپنی شکل و صورت بدلنے پر قادر تھے۔ چنانچہ ہم یہاں انجیل لوقا کی عبارت پر اکتفا کرتے ہیں:

جب وہ دعا مانگ رہا تھا تو ایسا ہوا کہ اس کے چہرے کی صورت بدل گئی اور اس کی پوشاک سفید و براق ہو گئی ۔ (لوقا ۹: ۲۹)

iv۔ یہ بات ایک واضح حقیقت ہے کہ موجودہ چاروں اناجیل دوسری صدی عیسوی کے اواخر میں لکھی گئی ہیں۔ یعنی حضرت عیسیٰ (ع) کے قتل کے واقعے کے بہت بعد۔ تاہم ایک اور انجیل بھی لکھی گئی ہے جسے انجیل برنابا کہتے ہیں ۔ اس انجیل میں آیا ہے :

جب سپاہیاں یہوداہ کے ہمراہ اس مقام کے نزدیک پہنچے جہاں یسوع موجود تھے تو یسوع ایک بھیڑ کا شور سن کر ڈر گئے اور گھر میں داخل ہو گئے اور گیارہ (شاگرد) سو رہے تھے۔ جب اپنے بندے کو خطرے میں گھرا ہوا پایا تو اس نے اپنے نمائندوں جبرئیل، میخائیل، رفائیل اور اودیل کو بھیجا کہ یسوع کو اس عالم سے اٹھائیں۔ پاک فرشتے آئے اور یسوع کو جنوبی کھڑکی سے لے لیا اور اٹھا لیا اور تیسرے آسمان پر فرشتوں کی صحبت میں رکھ دیا۔ ادھر یہوداہ پوری قوت سے اس کمرے میں گھس گیا جس سے یسوع کو اٹھا لیا گیا تھا تو دیکھا تمام شاگرد سو رہے ہیں۔ چنانچہ اللہ نے ایک حیرت انگیز کام کیا کہ یہوداہ کا لہجہ اور صورت بالکل یسوع کی طرح ہو گئی۔ چنانچہ ہم نے یقین کر لیا کہ یہی یسوع ہیں۔ مگر وہ ہم کو جگانے کے بعد ہمارے معلم کو تلاش کرنے لگا، جس سے ہمیں حیرت ہوئی اور ہم نے کہا: آپ ہی ہمارے سردار معلم ہیں۔ کیا آپ نے ہمیں بھلا دیا ہے؟ (فی ظلال القرآن بحوالہ محاضرات فی النصرانیۃ ابوزھرہ)

v۔ کہتے ہیں کہ اس زمانے میں رواج یہ تھا کہ سولی کے اوپر والی لکڑی خود مجرم پرلاد کر سولی گھر تک لے جاتے تھے۔ حضرت مسیح (ع) ناتواں اور لاغر تھے۔ سولی کی لکڑی اٹھا کر فاصلے تک نہیں لے جا سکتے تھے۔ چنانچہ اس وقت کی حاکم قوم رومیوں نے ایک بدمعاش یہودی کو مجمع سے پکڑ کر صلیب کی لکڑی اس پر لاد دی۔ چنانچہ انجیل متیٰ میں یہ متن موجود ہے:

انہیں شمعون نامی ایک کرینی آدمی ملا۔ اسے بیگار پکڑا کر صلیب اٹھوائی۔ چنانچہ سولی پرمتعین افراد ایک اجنبی رومی قوم کے سپاہی اسرائیلیوں کے فرد فرد کو شناخت نہیں کر سکتے تھے ، حسب دستور اسی کو مجرم سمجھے جس پرصلیب لدی ہوئی تھی۔

چنانچہ سلیدیہ فرقے کانظریہ یہی ہے کہ سولی چڑھنے والا مسیح نہیں شمعون کرینی تھا۔

vi۔ شام اور فلسطین پر اس وقت رومیوں کی حکومت تھی ۔حضرت مسیح (ع) کو پکڑنے والے رومی سپاہیوں کے مقامی نہ ہونے کی وجہ سے فلسطین کے بنی اسرائیلی ان کے لیے اجنبی تھے اور حضرت عیسی (ع) کی گرفتاری کے وقت لوگوں کی بھیڑکا ہر انجیل میں ذکر ملتا ہے۔ اس بھیڑمیں شُبِّہَ لَہُمۡ کا امکان بہت زیادہ ہے۔

vii۔ عقیدہ کفارہ اور قتل مسیح کا نظریہ پیش کرنے والا موجود ہ مسیحیت کا بانی پولوس ہے، جو ۶۵ء میں وفات پا گیا۔ پولوس ، یہودی اور مسیحیوں کاجانی دشمن تھا ۔بعدمیں مسیحیت پر ایمان کا دعویٰ کیا تو مسیحی نہیں مانتے تھے لیکن برنابا کی تصدیق پر لوگوں نے اس کے ایمان کو قبول کر لیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں برنابا مسیحیوں میں ایک مستند شخصیت کا مالک تھا ۔ بعض اناجیل میں پولوس اور برنابا میں اختلاف کا ذکر ملتا ہے۔ یہاں تک کہ برنابا اپنی انجیل کی ابتدا میں لکھتا ہے:

پولوس نے حضرت یسوع کی تعلیمات کو بدل کر جدید تعلیم رائج کی ہے۔ ممکن ہے برنابا کی طرف سے پولوس کے ایمان کی تصدیق کے بعد اس نے مسیحیوں میں اپنا مقام بنا لیا ہو اور جدید مذہب کی بنیاد ڈالی ہو، جب کہ اس قسم کی سازشیں کرنا یہودیوں کا شیوہ ہے۔

مذکورہ مختلف حوالوں سے اس میں اختلاف نظرآتا ہے کہ حضرت مسیح (ع) کی جگہ سولی چڑھنے والا کون تھا۔ بعض تاریخی حوالوں سے یہ شخص شمعون کرینی تھا۔ انجیل برنابا کے مطابق یہ شخص یہوداہ تھا، جو خود حضرت مسیح (ع) کے گیارہ شاگردوں میں سے ایک تھا اور قتل مسیح کی سازش میں یہودیوں کے ساتھ شریک تھا۔ البتہ ایک ترجیحی امریہ ہے کہ بعض اناجیل سے ثابت ہے کہ یہوداہ نے خود کشی کی تھی۔ ممکن ہے جب یہوداہ کو مردہ پایا ہو توخودکشی پر محمول کیا ہو، جب کہ درحقیقت یہودا ، مسیح (ع) کی جگہ سولی پر مرا ہو۔ یورپ کے بعض اہل تحقیق یہ نظریہ قائم کرتے ہیں کہ مسیح (ع) سولی پربے ہوش ہو گئے تھے، انہیں مردہ سمجھ کر سولی سے اتار دیا گیا۔ وہ ہوش میں آئے اور لوگوں کی نظروں سے غائب ہو گئے وغیرہ۔

بَلۡ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیۡہِ: بلکہ اللہ نے انہیں اپنی طرف اٹھایا۔ کچھ کج سلیقہ لوگ رَّفَعَ سے ر فع درجات مراد لیتے ہیں جو کہ سیاق و سباق آیت کے صریحاً خلاف ہے۔ چونکہ رَّفَعَ قتل کے مقابلے میں آیا ہے کہ انہیں قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے انہیں اپنی طرف اٹھا لیا۔ ظاہر ہے کہ قتل کے مقابلے میں رَّفَعَ آتا ہے تو مطلب صاف اور صریح یہ نکلتا ہے کہ انہیں اٹھا لیا گیا ہے، وہ قتل نہیں کیے گئے ۔ اگر رفع درجات مراد ہوتا یا روح کا اٹھانا مراد ہوتا تو یہ قتل کی صورت میں بھی قابل جمع ہے۔ لفظ بَلۡ (بلکہ) کے ساتھ استدراک کا معنی نہیں بنتا۔

آیت کے آخر میں عَزِیۡزًا حَکِیۡمًا کا ذکر اس بات پر شاہد ہے کہ اس سے پہلے بیان شدہ مطلب اللہ کی قہاریت اور غالب آنے سے مربوط ہے، ورنہ عیسیٰ (ع) کو موت آنے کی صورت میں تو کسی طاقت و قہاریت کا مظاہرہ نہیں ہوتا۔ کیونکہ اس صورت میں تو دشمنانِ خدا کی سازش کامیاب ہو جاتی ہے۔

لَیُؤۡمِنَنَّ بِہٖ قَبۡلَ مَوۡتِہٖ: اہل کتاب میں کوئی ایسا نہ ہو گا جو ان کی موت سے پہلے ان پر ایمان نہ لائے۔ اس جملے کی دو تفسیریں ہیں:

i۔ ایک وہ جو ہم نے ترجمے میں اختیار کی ہے۔ یعنی اہل کتاب میں کوئی ایسا نہ ہو گا جو حضرت عیسیٰ (ع) کی موت سے پہلے ان پر ایمان نہ لائے۔

ii۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ اہل کتاب میں سے کوئی ایسا نہ ہوگا جو اپنی موت سے پہلے حضرت عیسیٰ (ع) پر ایمان نہ لائے۔

آیت کی تعبیرمیں دونوں تفسیروں کا یکساں احتمال ہے ۔ البتہ خود الفاظ آیت سے قطع نظر دیگر شواہد سے پہلی تفسیر قرین قیاس معلوم ہوتی ہے۔

اہم نکات

۱۔ حضرت عیسیٰ (ع) اب بھی زندہ ہیں اور تمام اہل کتاب پر گواہ ہوں گے۔ لہٰذا ن کی موت بھی سب کے بعد ہو گی۔

۲۔نزول عیسیٰ (ع) کی روایات، احادیث میں تقریباً تواتر سے ثابت ہیں۔ لہٰذا جب حضرت عیسیٰ (ع) نزول فرمائیں گے تو تمام اہل کتاب ان پر ایمان لائیں گے کہ وہ اللہ کے رسول ہیں۔


آیات 155 - 161