بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

الٓـمّٓ ۚ﴿۱﴾

۱۔ الف، لام، میم۔

تَنۡزِیۡلُ الۡکِتٰبِ لَا رَیۡبَ فِیۡہِ مِنۡ رَّبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ؕ﴿۲﴾

۲۔ ایسی کتاب کا نازل کرنا جس میں شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے رب العالمین کی طرف سے (ہی ممکن) ہے۔

اَمۡ یَقُوۡلُوۡنَ افۡتَرٰىہُ ۚ بَلۡ ہُوَ الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّکَ لِتُنۡذِرَ قَوۡمًا مَّاۤ اَتٰہُمۡ مِّنۡ نَّذِیۡرٍ مِّنۡ قَبۡلِکَ لَعَلَّہُمۡ یَہۡتَدُوۡنَ﴿۳﴾

۳۔ کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس (رسول) نے اسے خود گھڑ لیا ہے ؟ (نہیں) بلکہ یہ آپ کے رب کی طرف سے برحق ہے تاکہ آپ ایسی قوم کو تنبیہ کریں جس کے پاس آپ سے پہلے کوئی تنبیہ کرنے والا نہیں آیا، شاید وہ ہدایت حاصل کر لیں۔

3۔ یعنی ان کے پاس ایک طویل مدت سے کوئی تنبیہ کرنے والا نہیں آیا۔ عربوں میں سب سے پہلے حضرت ہود اور حضرت صالح علیہما السلام معبوث ہوئے، پھر حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام مبعوث ہوئے اور ان میں آخری نبی حضرت شعیب علیہ السلام ہمارے نبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے دو ہزار سال پہلے مبعوث ہوئے۔ اس عرصے میں کوئی نبی مبعوث نہیں ہوا، لیکن ان میں ان انبیاء کا پیغام پہنچانے والے اور خدا کی حجت پوری کرنے والے موحدین ہمیشہ رہے ہیں۔

اَللّٰہُ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ وَ مَا بَیۡنَہُمَا فِیۡ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ ؕ مَا لَکُمۡ مِّنۡ دُوۡنِہٖ مِنۡ وَّلِیٍّ وَّ لَا شَفِیۡعٍ ؕ اَفَلَا تَتَذَکَّرُوۡنَ﴿۴﴾

۴۔ اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر عرش پر متمکن ہو گیا، اس کے سوا تمہارا نہ کوئی کارساز ہے اور نہ شفاعت کرنے والا، کیا تم نصیحت نہیں لیتے؟

ثُمَّ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ : اللہ تعالیٰ پھر عرش پر متمکن ہو گیا۔ واضح رہے عرش اللہ تعالیٰ کے مقام تدبیر کا نام ہے۔ اس لیے آسمانوں کی تخلیق کے بعد عرش کا ذکر آتا ہے اور ہمیشہ عرش کے ذکر کے بعد کائنات کی تدبیر سے متعلق امور کا ذکر ہوتا ہے۔ چنانچہ اس آیت میں عرش کے ذکر کے بعد اللہ کی ولایت اور شفاعت کا ذکر ہے۔ اگلی آیت میں یُدَبِّرُ الۡاَمۡرَ تدبیر امور کا ذکر ہے۔

یُدَبِّرُ الۡاَمۡرَ مِنَ السَّمَآءِ اِلَی الۡاَرۡضِ ثُمَّ یَعۡرُجُ اِلَیۡہِ فِیۡ یَوۡمٍ کَانَ مِقۡدَارُہٗۤ اَلۡفَ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوۡنَ﴿۵﴾

۵۔ وہ آسمان سے زمین تک امور کی تدبیر کرتا ہے پھر یہ امر ایک ایسے دن میں اللہ کی بارگاہ میں اوپر کی طرف جاتا ہے جس کی مقدار تمہارے شمار کے مطابق ایک ہزار سال ہے۔

5۔ نظریہ اضافت کی روسے بھی زمانہ یکساں نہیں ہے۔ جو چیز غیر مادی ہو وہ غیر زمانی بھی ہوتی ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ بھی زمانی نہیں ہے۔ حدیث میں آیا ہے: کَانَ وَ لَمْ یَزَلْ حَیّاً بِلَا کَیْفٍ وَ لَمْ یَکُنْ لَہُ کَانَ ۔ (الکافی 1 ; 88) وہ اس وقت بھی بغیر کسی کیفیت کے زندہ موجود تھا جب کہ اس کے لیے ”تھا“ بھی نہ تھا۔ یعنی زمانہ اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں سے ہے۔ اگر اللہ کے غیر زمانی افعال کی ارضی زمانے پر تطبیق کی جائے تو اللہ کا ایک روز یہاں کے ایک ہزار سال کے برابر ہو جائے۔ یہ ایک مثال ہے۔

ذٰلِکَ عٰلِمُ الۡغَیۡبِ وَ الشَّہَادَۃِ الۡعَزِیۡزُ الرَّحِیۡمُ ۙ﴿۶﴾

۶۔ وہی جو غیب و شہود کا جاننے والا ہے جو بڑا غالب آنے والا، رحیم ہے۔

الَّذِیۡۤ اَحۡسَنَ کُلَّ شَیۡءٍ خَلَقَہٗ وَ بَدَاَ خَلۡقَ الۡاِنۡسَانِ مِنۡ طِیۡنٍ ۚ﴿۷﴾

۷۔ جس نے ہر اس چیز کو جو اس نے بنائی بہترین بنایا اور انسان کی تخلیق مٹی سے شروع کی۔

7۔ انسان کی تخلیق میں خاکی عناصر ہی استعمال ہوئے ہیں اور یہ نہیں معلوم کہ ابتدائی خلیے (Cell) کو زندگی دینے میں اسے کن مراحل سے گزارا گیا۔

اَحۡسَنَ کُلَّ شَیۡءٍ خَلَقَہٗ : اللہ نے جس چیز کو بھی بنایا بہتر اور خیر بنایا۔ لہٰذا ہر چیز میں اللہ کی طرف سے خیر ہی خیر ہے۔ اگر شر آتا ہے تو بندے کی طرف سے آتا ہے کہ بندے نے اس خیر کو شر سے بدل دیا۔ دوسرے لفظوں میں کوئی بھی چیز مطلق خیر و شر نہیں ہے بلکہ خیر شر اضافتی و نسبی ہیں۔ یہ انسان ہے کہ خیر کو شر بناتا ہے۔

ثُمَّ جَعَلَ نَسۡلَہٗ مِنۡ سُلٰلَۃٍ مِّنۡ مَّآءٍ مَّہِیۡنٍ ۚ﴿۸﴾

۸۔ پھر اس کی نسل کو حقیر پانی کے نچوڑ سے پیدا کیا۔

8۔ یعنی انسان کی خلقت کی ابتدا تو مٹی سے ہوئی لیکن اس کی نسلوں کے تسلسل کو سلالہ کے ذریعے جاری رکھا۔ یعنی طین سے ابتدا ہوئی سلالہ سے نسل انسانی کو آگے بڑھایا۔ سلالہ نچوڑ کے معنوں میں ہے۔ اس کا بظاہر مطلب یہ نکلتا ہے کہ انسانی تخلیق کی بنیاد تو ارضی عناصر مٹی ہیں، لیکن اس مٹی کی نسل کو آگے بڑھانے کے لیے ایک خاص قسم کے پانی سے کام لیا گیا۔

ثُمَّ سَوّٰىہُ وَ نَفَخَ فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِہٖ وَ جَعَلَ لَکُمُ السَّمۡعَ وَ الۡاَبۡصَارَ وَ الۡاَفۡـِٕدَۃَ ؕ قَلِیۡلًا مَّا تَشۡکُرُوۡنَ﴿۹﴾

۹۔ پھر اسے معتدل بنایا اور اس میں اپنی روح میں سے پھونک دیا اور تمہارے لیے کان، آنکھیں اور دل بنائے، تم لوگ بہت کم شکر کرتے ہو۔

9۔ یہ بات اگرچہ مسلّم ہے کہ مردہ مادے سے حیات پیدا نہیں ہوتی۔ حیات، حیات ہی سے پیدا ہو سکتی ہے، تاہم حیات مادے کی گود میں پرورش پاتی ہے۔

وَ قَالُوۡۤا ءَ اِذَا ضَلَلۡنَا فِی الۡاَرۡضِ ءَ اِنَّا لَفِیۡ خَلۡقٍ جَدِیۡدٍ ۬ؕ بَلۡ ہُمۡ بِلِقَآیِٔ رَبِّہِمۡ کٰفِرُوۡنَ﴿۱۰﴾

۱۰۔ اور وہ کہتے ہیں: جب ہم زمین میں ناپید ہو جائیں گے تو کیا ہم نئی خلقت میں آئیں گے؟ بلکہ یہ لوگ تو اپنے رب کے حضور جانے کے منکر ہیں۔