آیت 5
 

یُدَبِّرُ الۡاَمۡرَ مِنَ السَّمَآءِ اِلَی الۡاَرۡضِ ثُمَّ یَعۡرُجُ اِلَیۡہِ فِیۡ یَوۡمٍ کَانَ مِقۡدَارُہٗۤ اَلۡفَ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوۡنَ﴿۵﴾

۵۔ وہ آسمان سے زمین تک امور کی تدبیر کرتا ہے پھر یہ امر ایک ایسے دن میں اللہ کی بارگاہ میں اوپر کی طرف جاتا ہے جس کی مقدار تمہارے شمار کے مطابق ایک ہزار سال ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ یُدَبِّرُ الۡاَمۡرَ مِنَ السَّمَآءِ اِلَی الۡاَرۡضِ: اللہ تعالیٰ کے عرش پر متمکن ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تدبیری حاکمیت پر متمکن ہوا۔ اللہ جس امر کے ذریعے تدبیر فرماتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے مقام رفعت سے مخلوقات کی طرف نزول کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو بات بھی اہل ارض کی طرف آتی ہے اسے نزول سے تعبیر فرمایا ہے۔ جیسے وحی، کتاب وغیرہ۔ لہٰذا اس جگہ السَّمَآءِ سے مراد مقام والائے پروردگار ہے جہاں سے تدبیر امور نازل ہوتے ہیں۔

۲۔ ثُمَّ یَعۡرُجُ اِلَیۡہِ فِیۡ یَوۡمٍ: زمانہ مادی چیزوں میں ہر جگہ یکساں نہیں ہے جیسا کہ نظریہ اضافت کے ہاں مسلم ہے لیکن جو چیز غیر مادی ہے وہ غیر زمانی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ زمانی نہیں ہے۔ حدیث میں آیا ہے:

کَانَ وَ لَمْ یَزَلْ حَیّاً بِلَا کَیْفٍ وَ لَمْ یَکُنْ لَہٗ کَانَ ۔۔۔۔ (الکافی ۱: ۸۸)

وہ اس وقت بھی بغیر کسی کیفیت کے زندہ موجود تھا جب کہ اس کے لیے ’’تھا‘‘ بھی نہ تھا۔

یعنی زمانہ اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں سے ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کے زمانی افعال کا ارضی زمانے کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو اللہ کا ایک روز، یہاں کے ہزار سال کے برابر ہو جائے۔ یہ صرف ایک مثال ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کے امور زمان و زمانیات سے ماوراء ہیں۔ مطلب یہ ہو سکتاہے کہ ایسے وقت اور زمانے میں امر الٰہی کا نزول و عروج ہوتا ہے کہ اگر ارضی زمانے کے مطابق یہ عروج و نزول انجام پائے تو ہزار سال لگ جائیں۔

اور ممکن ہے ’’ہزار‘‘ حد بندی کے لیے نہ ہو کثرت کی طرف اشارہ ہو۔ جیسے:

وَ اِنَّ یَوۡمًا عِنۡدَ رَبِّکَ کَاَلۡفِ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوۡنَ﴿﴾ (۲۲ حج: ۴۷)

اور آپ کے پروردگار کے ہاں کا ایک دن تمہارے شمار کے مطابق یقینا ہزار برس کی طرح ہے۔

ہزار برس کی طرح ہے، ایک مثال ہے، حدبندی نہیں ہے۔

یَعۡرُجُ: یعرج الامر الی اللہ ۔ یہ امر آسمان سے زمین کی طرف آنے کے بعد اللہ کی طرف اوپر جاتا ہے۔ یہ امر نزول کے بعد عروج کرتا ہے۔ بظاہر یہ عروج ایک ہزار سال کی مدت میں پورا ہوتا ہے:

اَلَاۤ اِلَی اللّٰہِ تَصِیۡرُ الۡاُمُوۡرُ﴿﴾ (۴۲ شوری: ۵۳)

تمام معاملات اللہ ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی طرف عروج سے کیا مراد ہے؟ صحیح طریقے سے معلوم نہ ہو سکا۔ تقریباً تمام مفسرین کی تشریحات کا مطالعہ کیا لیکن لا یسمن ولا یغنی من جوع ۔ یہ مسئلہ میرے لیے حل نہ ہو سکا۔

ایک روایت کے مطابق ابن عباس نے بھی اس یوم کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کیا۔ ( معالم التنزیل ذیل آیت)

اہم نکات

۱۔ تدبیر امور کا نزول و عروج اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے، نہ غیر اللہ کے ہاتھ میں: یُدَبِّرُ الۡاَمۡرَ مِنَ السَّمَآءِ ۔۔۔۔


آیت 5