آیت 10
 

وَ قَالُوۡۤا ءَ اِذَا ضَلَلۡنَا فِی الۡاَرۡضِ ءَ اِنَّا لَفِیۡ خَلۡقٍ جَدِیۡدٍ ۬ؕ بَلۡ ہُمۡ بِلِقَآیِٔ رَبِّہِمۡ کٰفِرُوۡنَ﴿۱۰﴾

۱۰۔ اور وہ کہتے ہیں: جب ہم زمین میں ناپید ہو جائیں گے تو کیا ہم نئی خلقت میں آئیں گے؟ بلکہ یہ لوگ تو اپنے رب کے حضور جانے کے منکر ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ منکرین قیامت، معاد جسمانی کو قابل قبول نہیں سمجھتے تھے۔ ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی تھی کہ زمین میں گم شدہ اجزاء کو اللہ دوبارہ کیسے جمع کرے گا؟ ان مشرکین کو اس وقت یہ علم نہ تھا کہ صرف مرنے کے بعد نہیں بلکہ زندگی میں بھی اس انسان کے اجزاء فضا میں بکھرتے رہتے ہیں جو کبھی کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اجزاء کی صورت میں ایک درخت کا حصہ بن جاتے ہیں پھر اس درخت کے پھل میں بھی شریک ہو جاتے ہیں۔ وہ پھل ایک دوسرا انسان کھاتا ہے، اس طرح اس کے جسم کا حصہ بن جاتے ہیں۔

ان کو اس بات کا بھی اندازہ نہیں تھا کہ اس دنیا کے دور و دراز علاقوں سے اٹھنے والے بادلوں کے پانی انسانی جسم کا حصہ بن جاتے ہیں۔ مختلف ملکوں سے آنے والی گندم، پھل دنیابھر سے سمٹ کر آپ کے دسترخوان پر آ جاتے ہیں۔ جس سے آپ کا خون، نطفہ پھر آپ کا وجود بن جاتا ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

اَفَعَیِیۡنَا بِالۡخَلۡقِ الۡاَوَّلِ ؕ بَلۡ ہُمۡ فِیۡ لَبۡسٍ مِّنۡ خَلۡقٍ جَدِیۡدٍ﴿﴾ (۵۰ ق: ۱۵)

کیا ہم پہلی بار کی تخلیق سے عاجز آ گئے تھے؟ بلکہ یہ لوگ نئی تخلیق کے بارے میں شک میں پڑے ہوئے ہیں۔

۲۔ بَلۡ ہُمۡ بِلِقَآیِٔ رَبِّہِمۡ کٰفِرُوۡنَ: وہ اللہ کی قدرت کو سمجھتے ہیں۔ درحقیقت وہ اللہ کی عدالت میں پیش ہونے اور اپنے گناہوں کا حساب دینے کے لیے حاضر نہیں ہیں۔ جیسے ہمارے معاشرے کے بے عمل لوگ عمل کی ضرورت کے قائل نہیں ہوتے۔

اہم نکات

۱۔ انسان مرنے کے بعد زمین میں گم نہیں ہوتا۔ اجزاء بکھر جاتے ہیں، معدوم نہیں ہوتے: ءَ اِذَا ضَلَلۡنَا فِی الۡاَرۡضِ ۔۔۔۔


آیت 10