آیت 3
 

اَمۡ یَقُوۡلُوۡنَ افۡتَرٰىہُ ۚ بَلۡ ہُوَ الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّکَ لِتُنۡذِرَ قَوۡمًا مَّاۤ اَتٰہُمۡ مِّنۡ نَّذِیۡرٍ مِّنۡ قَبۡلِکَ لَعَلَّہُمۡ یَہۡتَدُوۡنَ﴿۳﴾

۳۔ کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس (رسول) نے اسے خود گھڑ لیا ہے ؟ (نہیں) بلکہ یہ آپ کے رب کی طرف سے برحق ہے تاکہ آپ ایسی قوم کو تنبیہ کریں جس کے پاس آپ سے پہلے کوئی تنبیہ کرنے والا نہیں آیا، شاید وہ ہدایت حاصل کر لیں۔

تفسیر آیات

۱۔ اَمۡ یَقُوۡلُوۡنَ افۡتَرٰىہُ: کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس قرآن کو خود محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تصنیف کر کے اللہ کی طرف نسبت دی۔ سورہ یونس آیت ۳۸ میں اس کا جواب دیا ہے:

اَمۡ یَقُوۡلُوۡنَ افۡتَرٰىہُ ؕ قُلۡ فَاۡتُوۡا بِسُوۡرَۃٍ مِّثۡلِہٖ وَ ادۡعُوۡا مَنِ اسۡتَطَعۡتُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ﴿﴾

کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس قرآن کو (محمدنے) از خود بنایاہے؟ کہدیجیے: اگر تم (اپنے الزام میں) سچے ہو تو تم بھی اس طرح کی ایک سورت بنا لاؤ اور اللہ کے سوا جسے تم بلا سکتے ہو بلا لاؤ۔

۲۔ بَلۡ ہُوَ الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّکَ: بلکہ یہ قرآن مبنی برحق ہے۔ اس کی حقانیت پر خود قرآن شاہد ہے۔

۳۔ لِتُنۡذِرَ قَوۡمًا مَّاۤ اَتٰہُمۡ مِّنۡ نَّذِیۡرٍ: تاکہ آپ ایسی قوم کی تنبیہ کریں جس کے پاس آپ سے پہلے تنبیہ کرنے والا نہیں آیا۔ وہ قوم کون سی قوم ہے جس کے پاس کوئی تنبیہ کرنے والا نہیں آیا؟ ظاہر ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جس قوم کی طرف مبعوث کیا گیا ہے اس قوم میں نبی مبعوث نہیں ہوئے۔ مَّاۤ اَتٰہُمۡ اس قوم کے پاس کوئی نذیر یعنی تنبیہ کرنے والا نہیں آیا اگرچہ انبیاء علیہم السلام کا پیغام ان تک پہنچتا رہا۔ براہ راست ان کے پاس کوئی نبی نہیں آیا۔ سورہ یٰس آیت ۶میں فرمایا:

لِتُنۡذِرَ قَوۡمًا مَّاۤ اُنۡذِرَ اٰبَآؤُہُمۡ ۔۔۔۔

تاکہ آپ ایک ایسی قوم کو تنبیہ کریں جس کے باپ دادا کو تنبیہ نہیں کی گئی تھی۔

ان دو آیات سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ نہ ان کے پاس کوئی تنبیہ کرنے والا نبی آیا نہ ان کی تنبیہ ہوئی۔

درست ہے کہ عربوں کی طرف صدیوں سے کوئی نبی نہیں آیا اور یہ بھی درست ہے ایک مدت سے ان کی تنبیہ بھی نہیں ہوئی چونکہ کفر و شرک نے ان میں ایسا رواج پایا تھا کہ انبیاء علیہم السلام کی دعوت بھی ان تک نہیں پہنچنے دی گئی۔ چنانچہ عرب کے لوگ عمرو الخزاعی کے زمانے تک ملت ابراہیمی پر قائم تھے۔ عمرو الخزاعی نے ان میں بت پرستی کا رواج ڈالا۔ اس کے بعد ان میں نہ تنبیہ رہی، نہ تنبیہ کرنے والا۔

درج بالا بیان سے یہ بات واضح ہو گئی کہ یہ آیت آیہ وَ اِنۡ مِّنۡ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیۡہَا نَذِیۡرٌ ۔۔۔۔ (۳۵ فاطر: ۲۴) کے ساتھ متصادم نہیں ہے۔ چونکہ کوئی امت کسی نبی کی دعوت کے بغیر نہیں رہی۔

ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ دعوت اور حجت خدا کا سلسلہ کبھی منقطع نہیں ہوا۔ خواہ وہ براہ راست ہو یا کسی وصی کے ذریعہ ہو۔ چنانچہ خود عرب مشرکین کے معاشرے میں ملت ابراہیمی کی بہت سی تعلیمات باقی رہیں جیسے حج کے اکثر اعمال، چار مہینوں کی حرمت وغیرہ اور ان میں موحد لوگ بھی موجود رہے۔

اہم نکات

۱۔ کفار کے پاس منطق نہیں ہوتی الزام تراشی سے کام لیتے ہیں۔ اَمۡ یَقُوۡلُوۡنَ افۡتَرٰىہُ ۔۔۔۔

۲۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسی قوم کی طرف مبعوث ہوئے جو نذیر و نذارت سے محروم رہی: مَّاۤ اَتٰہُمۡ مِّنۡ نَّذِیۡرٍ ۔۔۔۔


آیت 3