آیات 147 - 148
 

وَ مَا کَانَ قَوۡلَہُمۡ اِلَّاۤ اَنۡ قَالُوۡا رَبَّنَا اغۡفِرۡ لَنَا ذُنُوۡبَنَا وَ اِسۡرَافَنَا فِیۡۤ اَمۡرِنَا وَ ثَبِّتۡ اَقۡدَامَنَا وَ انۡصُرۡنَا عَلَی الۡقَوۡمِ الۡکٰفِرِیۡنَ﴿۱۴۷﴾

۱۴۷۔ اور ان کی دعا صرف یہ تھی: ہمارے رب!ہمارے گناہوں سے اور ان زیادتیوں سے درگزر فرما جو ہم نے اپنے معاملات میں کی ہیں اور ہمیں ثابت قدم رکھ اور کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد فرما۔

فَاٰتٰىہُمُ اللّٰہُ ثَوَابَ الدُّنۡیَا وَ حُسۡنَ ثَوَابِ الۡاٰخِرَۃِ ؕ وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ﴿۱۴۸﴾٪

۱۴۸۔چنانچہ اللہ نے انہیں دنیا کا ثواب بھی دیا اور آخرت کا بہتر ثواب بھی عطا کیا اور اللہ نیکی کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ مَا کَانَ قَوۡلَہُمۡ: دیگر انبیاء علیہم السلام کے ساتھی مجاہدین اپنی عملی قربانی کے ساتھ اپنے گفتار کے ذریعے ایمان و عقیدے کی پختگی کا اظہار اس طرح کرتے تھے: جہاد میں سرخ روئی کے ساتھ نکلنے پر اترانے کی جگہ اپنے گناہوں کے لیے معافی طلب کرتے ہیں۔ ذُنُوۡبَنَا سے گناہان صغیرہ اور اِسۡرَافَنَا سے گناہان کبیرہ مراد ہو سکتے ہیں۔

۲۔ وَ ثَبِّتۡ اَقۡدَامَنَا: تیرے دشمن کے خلاف جہاد میں ہمیں ثابت قدم رکھ۔ وہ اس بات کو اچھی طرح سمجھتے تھے کہ ثابت قدمی اور نصرت، ایمان اور ایمان اللہ کی طرف سے عنایت ہوتا ہے۔

۴۔ فَاٰتٰىہُمُ اللّٰہُ ثَوَابَ الدُّنۡیَا: ان کی ثابت قدمی اور ایمان کی پختگی کی وجہ سے اللہ نے انہیں دنیا کا ثواب بھی فتح و نصرت کی شکل میں دیا۔

۵۔ وَ حُسۡنَ ثَوَابِ الۡاٰخِرَۃِ: اور آخرت کا ثواب بہتر طریقے سے دیا۔ یعنی آخرت کا ثواب دنیا کے ثواب سے کہیں بہتر دیا گیا۔


آیات 147 - 148