سَنُلۡقِیۡ فِیۡ قُلُوۡبِ الَّذِیۡنَ کَفَرُوا الرُّعۡبَ بِمَاۤ اَشۡرَکُوۡا بِاللّٰہِ مَا لَمۡ یُنَزِّلۡ بِہٖ سُلۡطٰنًا ۚ وَ مَاۡوٰىہُمُ النَّارُ ؕ وَ بِئۡسَ مَثۡوَی الظّٰلِمِیۡنَ﴿۱۵۱﴾

۱۵۱۔ ہم عنقریب کافروں کے دلوں میں رعب بٹھائیں گے کیونکہ یہ اللہ کے ساتھ شرک کرتے ہیں جس کی اللہ نے کوئی سند نازل نہیں کی اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ ظالموں کے لیے برا ٹھکانا ہے۔

151۔ ایمان باللہ تقویت قلب کا باعث ہے۔ اس کے برعکس شرک باﷲ ضعف قلب کا باعث ہو گا اور وہ لوگ مشرک ہونے کے اعتبار سے خود عدمِ تحفظ کا شکار رہیں گے۔ کفار کی طرف سے مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے اور عدم تحفظ کا تاثر دے کر ان میں تشویش پیدا کرنے کی کوشش کو ناکام بنانے اور مسلمانوں کو تحفظ کا احساس دلانے کے لیے فرمایا کہ آئندہ خود کافر مرعوب رہیں گے اور مشرک ہونے کی وجہ سے وہ خود عدم تحفظ کے احساس کا شکار رہیں گے۔

وَ لَقَدۡ صَدَقَکُمُ اللّٰہُ وَعۡدَہٗۤ اِذۡ تَحُسُّوۡنَہُمۡ بِاِذۡنِہٖ ۚ حَتّٰۤی اِذَا فَشِلۡتُمۡ وَ تَنَازَعۡتُمۡ فِی الۡاَمۡرِ وَ عَصَیۡتُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ مَاۤ اَرٰىکُمۡ مَّا تُحِبُّوۡنَ ؕ مِنۡکُمۡ مَّنۡ یُّرِیۡدُ الدُّنۡیَا وَ مِنۡکُمۡ مَّنۡ یُّرِیۡدُ الۡاٰخِرَۃَ ۚ ثُمَّ صَرَفَکُمۡ عَنۡہُمۡ لِیَبۡتَلِیَکُمۡ ۚ وَ لَقَدۡ عَفَا عَنۡکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ ذُوۡ فَضۡلٍ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ﴿۱۵۲﴾

۱۵۲۔اور بے شک اللہ نے تم سے جو وعدہ کیا تھا وہ پورا کیا جب تم اللہ کے حکم سے کفار کو قتل کر رہے تھے یہاں تک کہ تم خود کمزور پڑ گئے اور امر (رسول) میں تم نے باہم اختلاف کیا اور اس کی نافرمانی کی جب کہ اللہ نے تمہاری پسند کی بات (فتح و نصرت) بھی تمہیں دکھا دی تھی، تم میں سے کچھ طالب دنیا تھے اور کچھ آخرت کے خواہاں، پھر اللہ نے تمہیں کافروں کے مقابلے میں پسپا کر دیا تاکہ تمہارا امتحان لے اور اللہ نے تمہارا قصور معاف کر دیا اور اللہ ایمان والوں پر بڑا فضل کرنے والا ہے۔

152۔ تفسیر ابن کثیر میں آیا ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف نو (9) افراد رہ گئے۔ ان میں سات انصار تھے۔ دو قریش کے تھے۔ (قریش کے ان دو افراد کا نام لینا ان کے لیے گوارا نہ ہوا۔) انصار کے ساتوں افراد شہید ہو گئے تو رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے دو ساتھیوں سے کہا: لا ما انصفنا اصحابنا ۔ ہمارے ساتھیوں نے ہمارے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ (تفسیر ابن کثیر۔ اسی آیت کے ذیل میں)

اِذۡ تُصۡعِدُوۡنَ وَ لَا تَلۡوٗنَ عَلٰۤی اَحَدٍ وَّ الرَّسُوۡلُ یَدۡعُوۡکُمۡ فِیۡۤ اُخۡرٰىکُمۡ فَاَثَابَکُمۡ غَمًّۢا بِغَمٍّ لِّکَیۡلَا تَحۡزَنُوۡا عَلٰی مَا فَاتَکُمۡ وَ لَا مَاۤ اَصَابَکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ خَبِیۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ﴿۱۵۳﴾

۱۵۳۔ (یاد کرو) جب تم چڑھائی کی طرف بھاگے جا رہے تھے اور کسی کو پلٹ کر نہیں دیکھ رہے تھے، حالانکہ رسول تمہارے پیچھے تمہیں پکار رہے تھے، نتیجے کے طور پر اللہ نے تمہیں غم (رسول) کی پاداش میں غم دیا تاکہ جو چیز تمہارے ہاتھ سے جائے اور جو مصیبت تم پر نازل ہو اس پر تمہیں دکھ نہ ہو اور اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے۔

153۔ جنگ سے فرار کرنے والوں کی واضح تصویر کشی فرمانے کے بعد اللہ تعالیٰ واضح الفاظ میں یہ واقعہ ثبت کرنا چاہتا ہے کہ تم چڑھائی کی طرف بھاگے جا رہے تھے اور کسی کو پلٹ کر نہیں دیکھ رہے تھے، حالانکہ خود رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تمہارے پیچھے تمہیں پکار رہے تھے۔ اس واقعے کا سب سے المناک پہلو یہ ہے کہ بھاگنے والوں نے نبی کی آواز کو نظر انداز کر دیا جو فرما رہے ہیں: الیّ عباد اللّٰہ، الیّ عباد اللّٰہ، انا رسول اللّٰہ من یکرّفلہ جنۃ ۔ اللہ کے بندو میری طرف آؤ اللہ کے بندو میری طرف آؤ، میں رسول اللہ ہوں، جو واپس آئے گا اس کے لیے جنت ہے۔ رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اس ملکوتی آواز کو سننے کے باوجود فرار جاری رہا۔ اگر وہ رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آواز نہ سن رہے ہوتے اور اسے پہچان نہ رہے ہوتے تو یَدۡعُوۡکُمۡ صادق نہ آتا۔ رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نافرمانی کی وجہ نے انہیں شکست جیسی فضیحت میں مبتلا کر دیا۔ غَمًّۢا بِغَمٍّ کا دوسرا ترجمہ یہ ہو سکتا ہے کہ تمہیں غم در غم میں مبتلا کیا۔ یعنی متواتر غم میں مبتلا رہے، یہاں تک کہ دوسری باتیں تم بھول گئے، نہ غنیمت سے محرومی کا دکھ رہا، نہ جانی نقصانات کا غم۔

ثُمَّ اَنۡزَلَ عَلَیۡکُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ الۡغَمِّ اَمَنَۃً نُّعَاسًا یَّغۡشٰی طَآئِفَۃً مِّنۡکُمۡ ۙ وَ طَآئِفَۃٌ قَدۡ اَہَمَّتۡہُمۡ اَنۡفُسُہُمۡ یَظُنُّوۡنَ بِاللّٰہِ غَیۡرَ الۡحَقِّ ظَنَّ الۡجَاہِلِیَّۃِ ؕ یَقُوۡلُوۡنَ ہَلۡ لَّنَا مِنَ الۡاَمۡرِ مِنۡ شَیۡءٍ ؕ قُلۡ اِنَّ الۡاَمۡرَ کُلَّہٗ لِلّٰہِ ؕ یُخۡفُوۡنَ فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ مَّا لَا یُبۡدُوۡنَ لَکَ ؕ یَقُوۡلُوۡنَ لَوۡ کَانَ لَنَا مِنَ الۡاَمۡرِ شَیۡءٌ مَّا قُتِلۡنَا ہٰہُنَا ؕ قُلۡ لَّوۡ کُنۡتُمۡ فِیۡ بُیُوۡتِکُمۡ لَبَرَزَ الَّذِیۡنَ کُتِبَ عَلَیۡہِمُ الۡقَتۡلُ اِلٰی مَضَاجِعِہِمۡ ۚ وَ لِیَبۡتَلِیَ اللّٰہُ مَا فِیۡ صُدُوۡرِکُمۡ وَ لِیُمَحِّصَ مَا فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ﴿۱۵۴﴾

۱۵۴۔ پھر جب اس غم کے بعد تم پر امن و سکون نازل فرمایا تو تم میں سے ایک گروہ تو اونگھنے لگا، جب کہ دوسرے گروہ کو اپنی جانوں کی پڑی ہوئی تھی، وہ ناحق اللہ پر زمانہ جاہلیت والی بدگمانیاں کر رہے تھے، کہ رہے تھے: کیا اس امر میں ہمارا بھی کوئی حصہ ہے؟ کہدیجئے: سارا اختیار اللہ کے ہاتھ میں ہے، یہ لوگ جو بات اپنے اندر چھپائے رکھتے ہیں اسے آپ پر ظاہر نہیں کرتے، وہ کہتے ہیں: اگر (قیادت میں) ہمارا کچھ دخل ہوتا تو ہم یہاں مارے نہ جاتے، کہدیجئے:اگر تم اپنے گھروں میں ہوتے تو بھی جن کے مقدر میں قتل ہونا لکھا ہے وہ خود اپنے مقتل کی طرف نکل پڑتے اور یہ (جو کچھ ہوا وہ اس لیے تھا) کہ جو کچھ تمہارے سینوں میں ہے اللہ اسے آزمائے اور جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اسے چھانٹ کر واضح کر دے اور اللہ دلوں کا حال خوب جانتا ہے ۔

154۔ لشکر اسلام میں کچھ وہ لوگ تھے جو فرار ہونے کے بعد واپس آ گئے۔ وہ اپنے کیے پر نادم تھے۔ وَلَقَدْ عَفَا اللہُ عَنْھُمْ اللہ نے انہیں معاف فرما دیا۔ دوسرا گروہ ان لوگوں کا تھا جن کا ایمان اس شکست کی وجہ سے متزلزل ہو گیا تھا۔ انہوں نے کافرانہ کلمات کہ ڈالے اور جاہلیت کی سوچ سوچنے لگے۔ منافقین نے تو اس جنگ میں شرکت ہی نہیں کی تھی اور اسی لیے صاحب المنار نے کہا ہے: لا حاجۃ الی جعلھا من المنافقین ۔

اِنَّ الَّذِیۡنَ تَوَلَّوۡا مِنۡکُمۡ یَوۡمَ الۡتَقَی الۡجَمۡعٰنِ ۙ اِنَّمَا اسۡتَزَلَّہُمُ الشَّیۡطٰنُ بِبَعۡضِ مَا کَسَبُوۡا ۚ وَ لَقَدۡ عَفَا اللّٰہُ عَنۡہُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ حَلِیۡمٌ﴿۱۵۵﴾٪

۱۵۵۔ دونوں فریقوں کے مقابلے کے روز تم میں سے جو لوگ پیٹھ پھیر گئے تھے بلاشبہ ان کی اپنی بعض کرتوتوں کی وجہ سے شیطان نے انہیں پھسلا دیا تھا، تاہم اللہ نے انہیں معاف کر دیا، یقینا اللہ بڑا درگزر کرنے والا، بردبار ہے۔

155۔ اس جنگ سے فرار کو کسی سابقہ گناہ کا طبعی اور لازمی نتیجہ قرار دیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے شیطان کو لغزش پیدا کرنے کا موقع ملا۔ معاف اور درگزر کرنے کا تذکرہ دو مقامات پر آیا ہے۔ پہلی دفعہ نہایت نرم لہجے میں فرمایا: وَ لَقَدۡ عَفَا عَنۡکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ ذُوۡ فَضۡلٍ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اور دوسری دفعہ اس آیت میں آیا ہے اور لہجہ کلام پہلے سے مختلف، صیغہ بھی غائب کا استعمال ہوا ہے۔ علامہ طباطبائی اس سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ سابقہ عفو ان کے لیے ہے جن پر امن و سکون نازل کیا گیا اور دوسرا عفو ان لوگوں کے بارے میں ہے جو اللہ کے بارے میں جاہلانہ گمان رکھتے تھے۔ ان سے عفو کا مطلب ان پر عذاب نازل کرنے میں عجلت نہ کرنا ہے۔ چنانچہ اس کے بعد اللہ کے حلم و بردباری کا ذکر اس بات کی دلیل ہے کہ عفو کا مطلب فوری عذاب سے درگزر کرنا ہے۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَکُوۡنُوۡا کَالَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ قَالُوۡا لِاِخۡوَانِہِمۡ اِذَا ضَرَبُوۡا فِی الۡاَرۡضِ اَوۡ کَانُوۡا غُزًّی لَّوۡ کَانُوۡا عِنۡدَنَا مَا مَاتُوۡا وَ مَا قُتِلُوۡا ۚ لِیَجۡعَلَ اللّٰہُ ذٰلِکَ حَسۡرَۃً فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ ؕ وَ اللّٰہُ یُحۡیٖ وَ یُمِیۡتُ ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ﴿۱۵۶﴾

۱۵۶۔ اے ایمان والو! کافروں کی طرح نہ ہونا جو اپنے عزیز و اقارب سے، جب وہ سفر یا جنگ پر جاتے ہیں تو کہتے ہیں: اگر وہ ہمارے پاس ہوتے تو نہ مرتے اور نہ قتل ہوتے، اللہ ایسی باتوں کو ان کے دلوں میں حسرت پیدا کرنے کے لیے سبب بنا دیتا ہے، ورنہ حقیقتاً مارنے اور جلانے والا تو اللہ ہی ہے اور ساتھ تمہارے اعمال کا خوب مشاہدہ کرنے والا بھی اللہ ہی ہے۔

156۔ اس کافرانہ سوچ کی طرف اشارہ ہے جو بعض مسلمانوں کو لاحق تھی۔ جس کے تحت وہ رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قتل و ہزیمت کا ذمہ دار ٹھہراتے تھے۔ چونکہ وہ موت اور قتل کا سبب سفر اور جنگ کو سمجھتے تھے، اس لیے ان کے دلوں میں حسرت رہ گئی۔ اگر وہ سمجھتے کہ یہ اللہ کا فیصلہ ہے اور موت نے ہر صورت میں آنا ہے تو حسرت نہ ہوتی۔ واضح رہے جنگ احد میں منافقین کی کوئی شرکت نہ تھی۔ عبد اللہ بن ابی اپنے تین سو افراد کے ساتھ جنگ سے پیچھے ہٹ گیا تھا۔ لہذا یہ آیت منافقین سے مربوط نہیں ہے۔ ثانیاً اس آیت میں خطاب یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کہ کر اہل ایمان سے ہے، لہٰذا یہ ماننے کے سوا کوئی صورت نہیں ہے کہ یہ آیت کمزور ایمان والے مسلمانوں کے بارے میں ہے۔

وَ لَئِنۡ قُتِلۡتُمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ اَوۡ مُتُّمۡ لَمَغۡفِرَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَحۡمَۃٌ خَیۡرٌ مِّمَّا یَجۡمَعُوۡنَ﴿۱۵۷﴾

۱۵۷۔ اور اگر تم راہ خدا میں مارے جاؤ یا مر جاؤ تو اللہ کی طرف سے جو بخشش اور رحمت تمہیں نصیب ہو گی وہ ان سب سے بہت بہتر ہے جو وہ لوگ جمع کرتے ہیں۔

157۔ اس کافرانہ سوچ کے مقابلے میں مومنانہ سوچ کا بیان ہے کہ راہ خدا میں مارا جانا نہ صرف داغ حسرت نہیں ہے بلکہ کافروں کے مال و متاع سے کہیں بہتر ہے۔

وَ لَئِنۡ مُّتُّمۡ اَوۡ قُتِلۡتُمۡ لَاِالَی اللّٰہِ تُحۡشَرُوۡنَ﴿۱۵۸﴾

۱۵۸۔اور اگر تم مر جاؤ یا مارے جاؤ آخرکار اللہ کی بارگاہ میں اکھٹے کیے جاؤ گے۔

فَبِمَا رَحۡمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنۡتَ لَہُمۡ ۚ وَ لَوۡ کُنۡتَ فَظًّا غَلِیۡظَ الۡقَلۡبِ لَانۡفَضُّوۡا مِنۡ حَوۡلِکَ ۪ فَاعۡفُ عَنۡہُمۡ وَ اسۡتَغۡفِرۡ لَہُمۡ وَ شَاوِرۡہُمۡ فِی الۡاَمۡرِ ۚ فَاِذَا عَزَمۡتَ فَتَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُتَوَکِّلِیۡنَ﴿۱۵۹﴾

۱۵۹۔(اے رسول) یہ مہر الٰہی ہے کہ آپ ان کے لیے نرم مزاج واقع ہوئے اور اگر آپ تندخو اور سنگدل ہوتے تو یہ لوگ آپ کے پاس سے منتشر ہو جاتے، پس ان سے درگزر کریں اور ان کے لیے مغفرت طلب کریں اور معاملات میں ان سے مشورہ کر لیا کریں پھر جب آپ عزم کر لیں تو اللہ پر بھروسہ کریں، بے شک اللہ بھروسہ کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔

159۔ اس جنگ میں سب سے زیادہ صدمہ رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو پہنچا۔ دشمن سے جنگ کے بارے میں مدینے میں اختلاف شروع ہوا۔ ایک تہائی لشکر راستے سے واپس چلا گیا۔ ایک گروہ نے غنیمت کے لالچ میں رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نافرمانی کی۔ حضرت حمزہ و دیگر شہداء کی قربانی دینا پڑی۔ حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دندان مبارک شہید ہوئے۔ چند افراد کے علاوہ باقی مسلمان آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو میدان جنگ میں چھوڑ کر بھاگ گئے۔ انہوں نے آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آواز پر بھی لبیک نہیں کہی اور پلٹ کر دیکھا تک نہیں۔ آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قتل کی خبر سن کر دین سے برگشتہ ہو گئے اور آبائی دین اختیار کرنے کی باتیں کرنے لگے وغیرہ وغیرہ۔ ان تمام باتوں کے باوجود حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا رویہ نرم رہا اور آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خدائی اخلاق کا مظاہرہ فرمایا۔ رحمت الہٰی کا مظاہرہ ہوا اور تمام گستاخیوں کے باوجود نہ کسی کو راندﮤ درگاہ کیا، نہ کسی کی ایسی سرزنش کی کہ وہ آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے متنفر ہو جائے۔

اِنۡ یَّنۡصُرۡکُمُ اللّٰہُ فَلَا غَالِبَ لَکُمۡ ۚ وَ اِنۡ یَّخۡذُلۡکُمۡ فَمَنۡ ذَا الَّذِیۡ یَنۡصُرُکُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِہٖ ؕ وَ عَلَی اللّٰہِ فَلۡیَتَوَکَّلِ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ﴿۱۶۰﴾

۱۶۰۔ (مسلمانو !) اگر اللہ تمہاری مدد کرے تو پھر کوئی تم پر غالب نہیں آ سکتا اور اللہ تمہارا ساتھ چھوڑ دے تو اس کے بعد کون ہے جو تمہاری مدد کو پہنچے، لہٰذا ایمان والوں کو چاہیے کہ وہ صرف اللہ پر بھروسا کریں۔

160۔ سابقہ آیات میں بتایا گیا کہ کن حالات میں اللہ کی نصرت شامل حال ہو سکتی ہے۔ اللہ کے عطا کردہ دستور پر عمل کرنے کی صورت میں ہی اس کی نصرت کے اہل اور مستحق قرار پا سکتے ہیں۔ یعنی اس کے وضع کردہ نظام و سنن اور طبیعیاتی و تکوینی قوانین کی دفعات پر عمل، پھر طاقت کے اصل سرچشمے اللہ کی ذات پر بھروسہ کرنے کی صورت میں نصرت الہٰی مومنین کے شامل حال ہو سکتی ہے۔ ایسا ممکن نہیں ہے کہ ادھر رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نافرمانی کریں اور جنگ سے فرار ہوں، ادھر فتح و نصرت ان کے قدم چومے۔