آیات 149 - 150
 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ تُطِیۡعُوا الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا یَرُدُّوۡکُمۡ عَلٰۤی اَعۡقَابِکُمۡ فَتَنۡقَلِبُوۡا خٰسِرِیۡنَ﴿۱۴۹﴾

۱۴۹۔اے ایمان والو! اگر تم نے کافروں کی اطاعت کی تو وہ تمہیں الٹا پھیر دیں گے پھر تم بڑے خسارے میں پڑ جاؤ گے۔

بَلِ اللّٰہُ مَوۡلٰىکُمۡ ۚ وَ ہُوَ خَیۡرُ النّٰصِرِیۡنَ﴿۱۵۰﴾

۱۵۰۔در اصل اللہ ہی تمہارا کارساز ہے اور وہی بہترین مددگار ہے۔

تفسیر آیات

ابوسفیان اور کچھ دیگر منافقوں نے جنگ احد کی شکست کے وقت کہا تھا: ان محمدا قد قتل فارجعوا الی عشائرکم ۔ محمد (ص) مارے گئے، پس اپنے قبیلوں کی طرف رجوع کرو۔ جنگ احد کے بعد بھی کفار مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے میں مصروف رہے۔ وہ مسلمانوں کو بدظن کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ قرآن اس قسم کی سازشوں کو بروقت بے نقاب کرتا ہے تاکہ مسلمان کفار کے برے عزائم سے آگاہ رہیں۔

۱۔ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا: اس خطاب میں بھی ایک تنبیہ ہے کہ اے ایمان والو! اپنے ایمان کے تقاضے پورے کرو۔

۲۔ اِنۡ تُطِیۡعُوا الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا: کافر سے مراد یا تو منافقین ہیں جو شکست سے دوچار ہونے کے بعد کہ رہے تھے:

ارجعوا الی اخوانکم و ادخلوا فی دینھم ۔ (بحار ۲۰: ۲۸)

اپنی برادری کی طرف لوٹ جاؤ اور ان کے دین میں داخل ہو جاؤ۔

بعض کے نزدیک اس سے مراد ابو سفیان اور اس کے ساتھی ہیں۔ تاہم حکم عام ہے۔ ہر دور کے کفار اس میں شامل ہیں۔

۳۔ یَرُدُّوۡکُمۡ عَلٰۤی اَعۡقَابِکُمۡ: وہ کافر تم کو اپنے دین کی طرف لوٹا دیں گے۔

وَدُّوۡا لَوۡ تَکۡفُرُوۡنَ کَمَا کَفَرُوۡا فَتَکُوۡنُوۡنَ سَوَآءً ۔۔۔۔ (۴ نساء:۸۹)

وہ چاہتے ہیں کہ تم بھی ویسے ہی کافر ہو جاؤ جیسے کافر وہ خود ہیں۔

۴۔ فَتَنۡقَلِبُوۡا خٰسِرِیۡنَ: اگر تم ایمان کی دولت سے محروم ہو گئے تو تم نہایت خسارے میں ہو گے، دنیا و آخرت دونوں میں۔

۵۔ بَلِ اللّٰہُ مَوۡلٰىکُمۡ: کفار کی اطاعت کی جگہ اللہ کی اطاعت کرو۔ وہی تمہارا کارساز ہے اور نصرت بھی اسی کی طرف سے ہے چونکہ اِنۡ یَّنۡصُرۡکُمُ اللّٰہُ فَلَا غَالِبَ لَکُمۡ ۔۔۔۔ (آل عمران: ۱۶۰) (مسلمانو!) اگر اللہ تمہاری مدد کرے تو پھر کوئی تم پر غالب نہیں آ سکتا۔


آیات 149 - 150