بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

بائبل کے مطابق فرعون بنی اسرائیل کا مخالف اس لیے ہوا کہ وہ بنی اسرائیل کی بڑھتی ہوئی آبادی سے گھبرا گیا اور اسے یہ اندیشہ ہوا کہ اگر جنگ چھڑ جائے تو یہ لوگ ہمارے دشمنوں سے مل کر ہم سے لڑیں گے۔ اس لیے بنی اسرائیل کے نوزائیدہ بچوں کو قتل کرنے اور لڑکیوں کو زندہ چھوڑنے کا حکم دیا گیا۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ نجومیوں نے پیشگوئی کی کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص پیدا ہو گا جو فرعون کی حکومت کا خاتمہ کر دے گا۔ مگر اس روایت کا اصل مأخذ اسرائیلی روایات ہیں۔

طٰسٓمّٓ﴿۱﴾

۱۔ طا، سین ، میم۔

تِلۡکَ اٰیٰتُ الۡکِتٰبِ الۡمُبِیۡنِ﴿۲﴾

۲۔ یہ کتاب مبین کی آیات ہیں۔

نَتۡلُوۡا عَلَیۡکَ مِنۡ نَّبَاِ مُوۡسٰی وَ فِرۡعَوۡنَ بِالۡحَقِّ لِقَوۡمٍ یُّؤۡمِنُوۡنَ﴿۳﴾

۳۔ ہم آپ کو موسیٰ اور فرعون کا واقعہ اہل ایمان کے لیے حقیقت کے مطابق سناتے ہیں۔

اِنَّ فِرۡعَوۡنَ عَلَا فِی الۡاَرۡضِ وَ جَعَلَ اَہۡلَہَا شِیَعًا یَّسۡتَضۡعِفُ طَآئِفَۃً مِّنۡہُمۡ یُذَبِّحُ اَبۡنَآءَہُمۡ وَ یَسۡتَحۡیٖ نِسَآءَہُمۡ ؕ اِنَّہٗ کَانَ مِنَ الۡمُفۡسِدِیۡنَ﴿۴﴾

۴۔فرعون نے زمین میں سر اٹھا رکھا تھا اور اس کے باسیوں کو گروہوں میں تقسیم کر دیا تھا، ان میں سے ایک گروہ کو اس نے بے بس کر رکھا تھا، وہ ان کے بیٹوں کو ذبح کرتا اور ان کی بیٹیوں کو زندہ چھوڑتا تھا اور وہ یقینا فسادیوں میں سے تھا۔

وَ نُرِیۡدُ اَنۡ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیۡنَ اسۡتُضۡعِفُوۡا فِی الۡاَرۡضِ وَ نَجۡعَلَہُمۡ اَئِمَّۃً وَّ نَجۡعَلَہُمُ الۡوٰرِثِیۡنَ ۙ﴿۵﴾

۵۔ اور ہم یہ ارادہ رکھتے ہیں کہ جنہیں زمین میں بے بس کر دیا گیا ہے ہم ان پر احسان کریں اور ہم انہیں پیشوا بنائیں اور ہم انہی کو وارث بنائیں۔

5۔ اس آیت کے ائمہ اہل البیت علیہم السلام پر منطبق ہونے کے سلسلے میں روایات بکثرت موجود ہیں۔ حضرت علی علیہ السلام سے منقول ہے : لتعطفن الدنیا علینا بعد شماسھا عطف الضروس علی ولدھا ۔ (نہج البلاغۃ) یہ دنیا اپنی منہ زوری دکھانے کے بعد پھر ہماری طرف جھکے گی، جس طرح سرکش اونٹنی اپنے بچوں کی طرف جھکتی ہے۔ اس کے بعد حضرت علیہ السلام نے اس آیت کی تلاوت فرمائی۔

وَ نُمَکِّنَ لَہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ وَ نُرِیَ فِرۡعَوۡنَ وَ ہَامٰنَ وَ جُنُوۡدَہُمَا مِنۡہُمۡ مَّا کَانُوۡا یَحۡذَرُوۡنَ﴿۶﴾

۶۔ اور ہم زمین میں انہیں اقتدار دیں اور ان کے ذریعے ہم فرعون اور ہامان اور ان کے لشکروں کو وہ کچھ دکھا دیں جس کا انہیں ڈر تھا۔

6۔ جس طرح فرعون کسی شخص کا نام نہیں بلکہ شاہی لقب تھا، اسی طرح ہامان بھی کوئی سرکاری لقب ہی تھا۔ تاریخ سے اتنا تو بہرحال ثابت ہے کہ مصر کے بڑے دیوتا کا نام آمن (Amon ) تھا۔ اس کے بڑے پجاری کے اختیارات بادشاہ سے بس کچھ ہی کم ہوتے تھے۔ بعید نہیں کہ اس بڑے پجاری کا سرکاری لقب عربی تلفظ میں ہامان ہو۔ عبری اور عربی میں تلفظ کے فرق کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ مثلاً عبری تلفظ عمرام، موشی اور یسوع کا عربی تلفظ عمران، موسیٰ اور عیسیٰ ہیں۔ لہٰذا یہ الزام بالکل بے بنیاد ہے کہ ہامان نام کا مصر میں کوئی شخص تھا ہی نہیں۔ یہ تو کسی ایرانی بادشاہ کے ایک امیر، درباری کا نام ہے اور قرآن نے غلطی سے ہامان کو مصری دیوتا قرار دیا ہے۔ (نعوذ باللہ )

وَ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰۤی اُمِّ مُوۡسٰۤی اَنۡ اَرۡضِعِیۡہِ ۚ فَاِذَا خِفۡتِ عَلَیۡہِ فَاَلۡقِیۡہِ فِی الۡیَمِّ وَ لَا تَخَافِیۡ وَ لَا تَحۡزَنِیۡ ۚ اِنَّا رَآدُّوۡہُ اِلَیۡکِ وَ جَاعِلُوۡہُ مِنَ الۡمُرۡسَلِیۡنَ﴿۷﴾

۷۔ اور ہم نے مادر موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ انہیں دودھ پلائیں اور جب ان کے بارے میں خوف محسوس کریں تو انہیں دریا میں ڈال دیں اور بالکل خوف اور رنج نہ کریں، ہم انہیں آپ کی طرف پلٹانے والے اور انہیں پیغمبروں میں سے بنانے والے ہیں۔

7۔ مادر موسیٰ علیہ السلام سے خطاب ہے کہ جب تک خطرہ نہ ہو بچے کو دودھ پلاتی رہو۔ جب خطرہ لاحق ہو جائے تو ایک تابوت میں رکھ کر دریا میں ڈال دو۔ کیونکہ تلمود کے مطابق فرعون نے جاسوس عورتیں چھوڑ رکھی تھیں جو بنی اسرائیل کے گھروں میں اپنے ساتھ چھوٹے بچے لے جاتی تھیں اور ان بچوں کو رلا دیتی تھیں تاکہ اگر کوئی بچہ چھپایا ہوا ہے تو وہ آواز کو سن کر روئے اور یوں اس بچے کو حاصل کر کے قتل کروا دیں۔

فَالۡتَقَطَہٗۤ اٰلُ فِرۡعَوۡنَ لِیَکُوۡنَ لَہُمۡ عَدُوًّا وَّ حَزَنًا ؕ اِنَّ فِرۡعَوۡنَ وَ ہَامٰنَ وَ جُنُوۡدَہُمَا کَانُوۡا خٰطِئِیۡنَ﴿۸﴾

۸۔ چنانچہ آل فرعون نے انہیں اٹھا لیا تاکہ وہ ان کے لیے دشمن اور باعث رنج بن جائیں، یقینا فرعون اور ہامان اور ان دونوں کے لشکر والے خطاکار تھے۔

8۔ آل فرعون نے موسیٰ علیہ السلام کو اس لیے اٹھایا تھا کہ ان کے لیے مفید ثابت ہو یا اسے بیٹا بنا لیں لیکن ہوا یہ کہ فرعون کے لیے جانی دشمن اور باعث رنج بن گیا تو گویا وہ اپنے لیے ایک دشمن اور باعث رنج کو اٹھا رہے تھے: کَانُوۡا خٰطِئِیۡنَ وہ اٹھانے میں خطا کار نہ تھے بلکہ موسیٰ علیہ السلام کو دشمن اور باعث رنج بنانے میں خطا کار تھے۔

وَ قَالَتِ امۡرَاَتُ فِرۡعَوۡنَ قُرَّتُ عَیۡنٍ لِّیۡ وَ لَکَ ؕ لَا تَقۡتُلُوۡہُ ٭ۖ عَسٰۤی اَنۡ یَّنۡفَعَنَاۤ اَوۡ نَتَّخِذَہٗ وَلَدًا وَّ ہُمۡ لَا یَشۡعُرُوۡنَ﴿۹﴾

۹۔ اور فرعون کی عورت نے کہا:یہ (بچہ) تو میری اور تیری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، اسے قتل نہ کرو۔ ممکن ہے یہ ہمارے لیے مفید ثابت ہو یا ہم اسے بیٹا بنا لیں اور وہ (انجام سے) بے خبر تھے۔

9۔ بائبل کا بیان ہے کہ یہ عورت فرعون کی بیٹی تھی لیکن قرآن نے اس کی اصلاح کی کہ یہ فرعون کی بیٹی نہیں بیوی تھی۔

وَ اَصۡبَحَ فُؤَادُ اُمِّ مُوۡسٰی فٰرِغًا ؕ اِنۡ کَادَتۡ لَتُبۡدِیۡ بِہٖ لَوۡ لَاۤ اَنۡ رَّبَطۡنَا عَلٰی قَلۡبِہَا لِتَکُوۡنَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ﴿۱۰﴾

۱۰۔ اور ادھر مادر موسیٰ کا دل بے قرار ہو گیا، قریب تھا کہ وہ یہ راز فاش کر دیتیں اگر ہم نے ان کے دل کو مضبوط نہ کیا ہوتا، تاکہ وہ ایمان رکھنے والوں میں سے ہو جائیں۔