آیت 7
 

وَ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰۤی اُمِّ مُوۡسٰۤی اَنۡ اَرۡضِعِیۡہِ ۚ فَاِذَا خِفۡتِ عَلَیۡہِ فَاَلۡقِیۡہِ فِی الۡیَمِّ وَ لَا تَخَافِیۡ وَ لَا تَحۡزَنِیۡ ۚ اِنَّا رَآدُّوۡہُ اِلَیۡکِ وَ جَاعِلُوۡہُ مِنَ الۡمُرۡسَلِیۡنَ﴿۷﴾

۷۔ اور ہم نے مادر موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ انہیں دودھ پلائیں اور جب ان کے بارے میں خوف محسوس کریں تو انہیں دریا میں ڈال دیں اور بالکل خوف اور رنج نہ کریں، ہم انہیں آپ کی طرف پلٹانے والے اور انہیں پیغمبروں میں سے بنانے والے ہیں۔

تشریح کلمات

الۡیَمِّ:

سمندر اور دریا دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰۤی اُمِّ مُوۡسٰۤی: ہم نے مادر موسیٰ کی طرف وحی بھیجی۔ وحی، کلام خفی اور پوشیدہ اشارے کے معنوں میں ہے۔ یہ کلام خفی اگر حروف و اصوات پر مشتمل ہے تو اصطلاح میں بھی وحی کہتے ہیں اور اگر حروف و اصوات کے بغیر صرف معانی و مطالب ذہن میں ڈال دے جائیں تو اسے الہام کہتے ہیں۔ اگر یہ تفہیم کسی کے تخلیقی مرحلے میں اس میں ودیعت کی گئی ہے تو اسے فطرت کہتے ہیں۔ چنانچہ وَ اَوۡحٰی رَبُّکَ اِلَی النَّحۡلِ ۔۔۔۔ (۱۶ نحل: ۶۸) میں یہی معنی مراد ہیں۔

مادر موسی کو وحی بمعنی الہام ہوئی ہے۔ یعنی ان کے دل میں یہ باتیں ڈال دی گئیں۔

۲۔ اَنۡ اَرۡضِعِیۡہِ: اسے دودھ پلائیں۔ جب تک فرعون کی طرف سے خطرہ لاحق نہیں ہے اسے اپنے پاس رکھیں اور دودھ پلاتی رہیں۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دریا میں ڈالنے سے پہلے جتنی مدت ماں کے پاس رکھا گیا، وہ حکم خدا سے رکھا گیا ہے۔

۳۔ فَاِذَا خِفۡتِ عَلَیۡہِ فَاَلۡقِیۡہِ فِی الۡیَمِّ: جب یہ خوف لاحق ہو جائے کہ فرعونیوں کو اس کے بچےکی ولادت کا علم ہو جائے گا اور وہ اسے ذبح کر دیں گے تو اس وقت اسے دریا میں ڈال دیں۔ الۡیَمِّ سے مراد یہاں دریائے نیل ہی ہو سکتا ہے چونکہ قصر فرعون دریائے نیل کے ساحل پر واقع تھا۔

تلمود کے مطابق فرعون نے جاسوس عورتیں چھوڑ رکھی تھی جو بنی اسرائیل کے گھروں میں اپنے چھوٹے بچے لے جاتی تھیں اور ان بچوں کو رلا دیتی تھیں تاکہ اگر کوئی بچہ چھپا ہوا ہے تو وہ آواز سن کر روئے اور یوں اس بچے کو حاصل کر کے قتل کروا دیں۔

۴۔ وَ لَا تَخَافِیۡ وَ لَا تَحۡزَنِیۡ: موسیٰ کی زندگی پر خوف نہ کرو اور جدائی کا غم بھی نہ کرو۔

آنے والے خطرات کی صورت میں خوف ہوتا ہے۔ گزشتہ مصیبت پر حزن ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان میں دونوں صورتوں کے لیے تسلی ہے۔ موسیٰ زندگی کے لیے آیندہ خطرات کا خوف نہ کرو اور دریا میں ڈالنے کے بعد جدائی کا غم نہ کرو۔ چونکہ یہ جدائی وقتی ہو گی۔

۵۔ نَّا رَآدُّوۡہُ اِلَیۡکِ: ہم اس بچے کو آپ کی طرف واپس کریں گے۔ آپ بچے کو دریا میں ڈال دیں۔ بچہ آپ کو واپس ملے گا۔ اس یقین دہانی پر مادر موسیٰ کو یقین آنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس الہام کی نوعیت ایسی تھی جس سے ماں کی مامتا کو بچے کی زندگی کے بارے میں یقین آ گیا۔

۶۔ وَ جَاعِلُوۡہُ مِنَ الۡمُرۡسَلِیۡنَ: ہم اس بچے کو مرسلین میں سے بنانے والے ہیں۔ اس پیشگوئی اور خوشخبری سے اندازہ ہوتا ہے کہ مادر موسی کو الہام کے ذریعے ملنے والا پیغام ایک خاص نوعیت کے الہام کے ذریعہ تھا نیز یہ بھی ہو سکتا ہے بنی اسرائیل ایک نجات دہندہ رسول کے انتظار میں تھے، مادر موسیٰ کو الہام و دیگر علامات سے معلوم ہوا ہو کہ یہ وہی نبی ہیں جس کے وہ انتظار میں تھے۔

اہم نکات

۱۔ خدا پر توکل اپنے جگر گوشے کو دریا کے حوالے کرنے پر آمادہ کر دیتا ہے۔


آیت 7