آیت 10
 

وَ اَصۡبَحَ فُؤَادُ اُمِّ مُوۡسٰی فٰرِغًا ؕ اِنۡ کَادَتۡ لَتُبۡدِیۡ بِہٖ لَوۡ لَاۤ اَنۡ رَّبَطۡنَا عَلٰی قَلۡبِہَا لِتَکُوۡنَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ﴿۱۰﴾

۱۰۔ اور ادھر مادر موسیٰ کا دل بے قرار ہو گیا، قریب تھا کہ وہ یہ راز فاش کر دیتیں اگر ہم نے ان کے دل کو مضبوط نہ کیا ہوتا، تاکہ وہ ایمان رکھنے والوں میں سے ہو جائیں۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ اَصۡبَحَ فُؤَادُ اُمِّ مُوۡسٰی فٰرِغًا: مادر موسیٰ کا دل خالی ہو گیا۔ اپنے لخت جگر کو دریا کے حوالے کرنے کے بعد بے چینی کی انتہائی حالت میں آنا ماں کی مامتا کا لازمی تقاضا ہے۔

۲۔ اِنۡ کَادَتۡ لَتُبۡدِیۡ بِہٖ: قریب تھا یہ راز فاش کر دیتیں۔ کہتے ہیں: جب موسیٰ علیہ السلام کو دریا کی موجوں کے تلاطم میں دیکھا تو مادر موسیٰ کی چیخ نکلنے والی تھی: ہائے میرا بیٹا! بعض دیگر لوگ کہتے ہیں: جب مادر موسیٰ کو علم ہوا کہ موسیٰ کو فرعون نے پکڑ لیا ہے تو بے صبر ہوگئیں۔

۳۔ لَوۡ لَاۤ اَنۡ رَّبَطۡنَا عَلٰی قَلۡبِہَا: صبر و تحمل کے الہام کے ذریعے اگر ہم قلب مادر موسیٰ کو تقویت نہ دیتے تو وہ اپنی پریشانی کو قابو میں نہیں رکھ سکتی تھیں۔ اس سے مفہوم یہ نکلتا ہے کہ چونکہ ہم نے مادر موسیٰ کے قلب کو تقویت دی تھی اس لیے انہوں نے اس راز کو فاش نہیں کیا۔

۴۔ لِتَکُوۡنَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ: ہم نے ان کے قلب کو صبر کی قوت دی تاکہ وہ ہمارے وعدے پر ایمان رکھنے والوں میں سے ہو جائے۔ اس صبر کا باعث وہ ایمان بن رہا ہے جو ہمارے وعدہ اِنَّا رَآدُّوۡہُ اِلَیۡکِ (ہم اسے آپ کی طرف واپس کرنے والے ہیں) پر رکھتی تھیں۔

اہم نکات

۱۔ بچے کو حوالہ دریا کرنے کا حکم اللہ کی طرف سے ہونے کے باوجود پریشان ہونا قدرتی بات ہے اور ماں کی مامتا کا تقاضا ہے۔

۲۔ صبر کا بہترین عامل ایمان ہے۔


آیت 10