آیت 4
 

اِنَّ فِرۡعَوۡنَ عَلَا فِی الۡاَرۡضِ وَ جَعَلَ اَہۡلَہَا شِیَعًا یَّسۡتَضۡعِفُ طَآئِفَۃً مِّنۡہُمۡ یُذَبِّحُ اَبۡنَآءَہُمۡ وَ یَسۡتَحۡیٖ نِسَآءَہُمۡ ؕ اِنَّہٗ کَانَ مِنَ الۡمُفۡسِدِیۡنَ﴿۴﴾

۴۔فرعون نے زمین میں سر اٹھا رکھا تھا اور اس کے باسیوں کو گروہوں میں تقسیم کر دیا تھا، ان میں سے ایک گروہ کو اس نے بے بس کر رکھا تھا، وہ ان کے بیٹوں کو ذبح کرتا اور ان کی بیٹیوں کو زندہ چھوڑتا تھا اور وہ یقینا فسادیوں میں سے تھا۔

تفسیر آیات

۱۔ اِنَّ فِرۡعَوۡنَ عَلَا فِی الۡاَرۡضِ: فرعون ارض مصر میں اس قدر جابر اور طاغوت بن گیا تھا کہ طاقت کے استعمال کے ساتھ اپنے رعایا کا مذہبی استحصال بھی کرتا تھا۔ چنانچہ وہ اپنے آپ کو سورج دیوتا، رب اور معبود کا نمائندہ ہونے کے اعتبار سے معبود سمجھتا تھا۔

۲۔ وَ جَعَلَ اَہۡلَہَا شِیَعًا: فرعونی معاشرے میں مصر کے شہری دو نسلوں میں منقسم تھے۔ اقباط اور اسباط۔ مقامی اور حاکم لوگوں کو اقباط اور مہاجر لوگوں کو جو بنی اسرائیلی تھے، اسباط کہتے تھے جو دوسرے نمبر کے شہری شمار ہوتے تھے۔

۳۔ یَّسۡتَضۡعِفُ طَآئِفَۃً مِّنۡہُمۡ: جس گروہ کو بے بس کر دیا تھا وہ بنی اسرائیل تھے۔ ان کی بیٹوں کو وہ ذبح کرتے اور بیٹیوں کو زندہ چھوڑتے تھے۔

بائبل کے مطابق فرعون بنی اسرائیل کا مخالف اس لیے ہوا کہ وہ بنی اسرائیل کی بڑھتی ہوئی آبادی سے گھبرا گیا اور اسے یہ اندیشہ ہوا کہ اگر جنگ چھڑ جائے تو یہ لوگ ہمارے دشمنوں سے مل کر ہم سے لڑیں گے۔ اس لیے بنی اسرائیل کے نوزائیدہ بچوں کو قتل کرنے اور لڑکیوں کو زندہ چھوڑنے کا حکم دیا گیا۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ نجومیوں نے پیشگوئی کی کہ بنی اسرائیل میں ایک بچہ پیدا ہو گا جو فرعون کی حکومت کا خاتمہ کر دے گا مگر اس روایت کا مأخذ اسرائیلی روایت ہے۔

۴۔ نِسَآءَہُمۡ: بعض اہل تحقیق کے مطابق نساء کا لفظ جب ابناء کے مقابلے میں آتا ہے تو اس سے مراد بیٹیاں ہیں جیسے اس آیت میں نساء سے مراد بیٹیاں ہیں، عورت نہیں۔


آیت 4