وَ قَالَتۡ لِاُخۡتِہٖ قُصِّیۡہِ ۫ فَبَصُرَتۡ بِہٖ عَنۡ جُنُبٍ وَّ ہُمۡ لَا یَشۡعُرُوۡنَ ﴿ۙ۱۱﴾

۱۱۔ اور مادر موسیٰ نے ان کی بہن سے کہا: اس کے پیچھے پیچھے چلی جا تو وہ موسیٰ کو دور سے دیکھتی رہیں کہ دشمنوں کو (اس کا) پتہ نہ چلے۔

11۔ چنانچہ اس بچی نے بڑی ہوشیاری اور فراست سے اپنے بھائی کے ساتھ ساتھ لب دریا پیچھا کیا اور اس بات کا پتہ لگانے میں کامیاب ہو گئی کہ وہ فرعون کے محل میں پہنچ گیا ہے۔

وَ حَرَّمۡنَا عَلَیۡہِ الۡمَرَاضِعَ مِنۡ قَبۡلُ فَقَالَتۡ ہَلۡ اَدُلُّکُمۡ عَلٰۤی اَہۡلِ بَیۡتٍ یَّکۡفُلُوۡنَہٗ لَکُمۡ وَ ہُمۡ لَہٗ نٰصِحُوۡنَ﴿۱۲﴾

۱۲۔ اور ہم نے موسیٰ پر دائیوں کا دودھ پہلے سے حرام کر دیا تھا، چنانچہ موسیٰ کی بہن نے کہا: کیا میں تمہیں ایک ایسے گھرانے کا پتہ بتا دوں جو اس بچے کو تمہارے لیے پالیں اور وہ اس کے خیرخواہ بھی ہوں؟

12۔ یعنی جو دایہ بھی دودھ پلانے کے لیے بلائی جاتی تھی بچہ اس کی چھاتی سے دودھ نہیں پیتا تھا۔ ہوشیار بہن محل کے آس پاس اپنے بھائی کے حالات پر نظر رکھے ہوئے تھی۔ جب پتہ چلا کہ بچہ کسی دایہ کا دودھ نہیں پی رہا تو بہن محل پہنچ گئی اور بولی: میں ایک شائستہ دایہ تلاش کر سکتی ہوں جو اس کو بڑے پیار سے پالے گی۔ اس طرح موسیٰ علیہ السلام اپنی ماں کی گود میں پہنچ گئے اور خود دشمن کی طرف سے ان کو تحفظ مل گیا۔

فَرَدَدۡنٰہُ اِلٰۤی اُمِّہٖ کَیۡ تَقَرَّ عَیۡنُہَا وَ لَا تَحۡزَنَ وَ لِتَعۡلَمَ اَنَّ وَعۡدَ اللّٰہِ حَقٌّ وَّ لٰکِنَّ اَکۡثَرَہُمۡ لَا یَعۡلَمُوۡنَ﴿٪۱۳﴾ ۞ٙ

۱۳۔ (اس طرح) ہم نے موسیٰ کو ان کی ماں کے پاس واپس پہنچا دیا تاکہ ماں کی آنکھ ٹھنڈی ہو جائے اور غم نہ کرے اور یہ جان لے کہ اللہ کا وعدہ سچا ہوتا ہے لیکن ان میں سے اکثر نہیں جانتے۔

وَ لَمَّا بَلَغَ اَشُدَّہٗ وَ اسۡتَوٰۤی اٰتَیۡنٰہُ حُکۡمًا وَّ عِلۡمًا ؕ وَ کَذٰلِکَ نَجۡزِی الۡمُحۡسِنِیۡنَ﴿۱۴﴾

۱۴۔ اور جب موسیٰ رشد کو پہنچ کر تنومند ہو گئے تو ہم نے انہیں حکمت اور علم عطا کیا اور ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں۔

14۔ رشد عقلی کے ساتھ طاقت بدنی اور صحت جسمانی بھی اس بار نبوت کو اٹھانے کے لیے ضروری معلوم ہوتی ہیں۔

وَ دَخَلَ الۡمَدِیۡنَۃَ عَلٰی حِیۡنِ غَفۡلَۃٍ مِّنۡ اَہۡلِہَا فَوَجَدَ فِیۡہَا رَجُلَیۡنِ یَقۡتَتِلٰنِ ٭۫ ہٰذَا مِنۡ شِیۡعَتِہٖ وَ ہٰذَا مِنۡ عَدُوِّہٖ ۚ فَاسۡتَغَاثَہُ الَّذِیۡ مِنۡ شِیۡعَتِہٖ عَلَی الَّذِیۡ مِنۡ عَدُوِّہٖ ۙ فَوَکَزَہٗ مُوۡسٰی فَقَضٰی عَلَیۡہِ ٭۫ قَالَ ہٰذَا مِنۡ عَمَلِ الشَّیۡطٰنِ ؕ اِنَّہٗ عَدُوٌّ مُّضِلٌّ مُّبِیۡنٌ﴿۱۵﴾

۱۵۔ اور موسیٰ شہر میں اس وقت داخل ہوئے جب شہر والے بے خبر تھے، پس وہاں دو آدمیوں کو لڑتے پایا، ایک ان کی قوم میں سے تھا اور دوسرا ان کے دشمنوں میں سے تھا تو جو ان کی قوم میں سے تھا اس نے اپنے دشمن کے مقابلے کے لیے موسیٰ کو مدد کے لیے پکارا تو موسیٰ نے اس (دوسرے) کو گھونسا مارا اور اس کا کام تمام کر دیا، پھر موسیٰ نے کہا: یہ تو شیطان کا کام ہو گیا، بے شک وہ صریح گمراہ کن دشمن ہے۔

15۔ فرعون کا قصر لب دریا شہر سے فاصلے پر تھا۔ وہاں سے حضرت موسیٰ علیہ السلام شہر میں داخل ہوئے۔ حِیۡنِ غَفۡلَۃٍ جب شہر کے لوگ گھروں میں تھے۔ صبح یا رات کا وقت ہونے کی وجہ سے وہ گھروں سے باہر کے حالات سے باخبر نہ تھے۔ دیکھا دو شخص آپس میں لڑ رہے ہیں۔ ایک حضرت موسیٰ علیہ السلام کا شیعہ تھا، دوسرا حضرت موسیٰ علیہ السلام کا دشمن۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے قبطی کو گھونسا مارا۔ گھونسے سے عام حالات میں آدمی نہیں مرتا، لیکن قبطی ایک گھونسے سے مر گیا۔ اس لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو پریشانی لاحق ہو گئی۔ بنا بر ایں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے قبطی کو عمداً نہیں مارا جیسا کہ بائیبل کہتی ہے۔ ہٰذَا مِنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ یعنی یہ لڑائی شیطان کا کام تھا، جس کے نتیجے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مداخلت کرنا پڑی اور قبطی کے قتل کی نوبت آئی۔ یہ قتل غیر مناسب وقت میں واقع ہوا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے ایک آزمائش ہو گئی اور منشأ خداوندی کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اس آزمائشی مرحلے سے گزرنا تھا۔

قَالَ رَبِّ اِنِّیۡ ظَلَمۡتُ نَفۡسِیۡ فَاغۡفِرۡ لِیۡ فَغَفَرَ لَہٗ ؕ اِنَّہٗ ہُوَ الۡغَفُوۡرُ الرَّحِیۡمُ﴿۱۶﴾

۱۶۔ کہا: میرے رب! میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا پس مجھے معاف فرما، چنانچہ اللہ نے انہیں معاف کر دیا۔ یقینا وہ بڑا معاف کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

قَالَ رَبِّ بِمَاۤ اَنۡعَمۡتَ عَلَیَّ فَلَنۡ اَکُوۡنَ ظَہِیۡرًا لِّلۡمُجۡرِمِیۡنَ﴿۱۷﴾

۱۷۔موسیٰ نے کہا: میرے رب! جس نعمت سے تو نے مجھے نوازا ہے اس کے باعث میں آئندہ کبھی بھی مجرموں کا پشت پناہ نہیں بنوں گا۔

17۔ مجرمین کا اشارہ فرعون اور قوم فرعون کی طرف ہے جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام ان کے نظام کا بظاہر حصہ بنے ہوئے تھے۔

فَاَصۡبَحَ فِی الۡمَدِیۡنَۃِ خَآئِفًا یَّتَرَقَّبُ فَاِذَا الَّذِی اسۡتَنۡصَرَہٗ بِالۡاَمۡسِ یَسۡتَصۡرِخُہٗ ؕ قَالَ لَہٗ مُوۡسٰۤی اِنَّکَ لَغَوِیٌّ مُّبِیۡنٌ﴿۱۸﴾

۱۸۔موسیٰ صبح کے وقت شہر میں ڈرتے ہوئے اور خطرہ بھانپنے کی حالت میں تھے، اچانک دیکھا کہ جس نے کل مدد مانگی تھی وہ آج پھر اس (موسیٰ) سے فریاد کر رہا ہے، موسیٰ نے اس سے کہا: تو یقینا صریح گمراہ شخص ہے۔

18۔ تم ایسے لوگوں سے لڑتے ہو جس کا نتیجہ ظلم اور زیادتی کے سوا کچھ نہ ہو گا۔

فَلَمَّاۤ اَنۡ اَرَادَ اَنۡ یَّبۡطِشَ بِالَّذِیۡ ہُوَ عَدُوٌّ لَّہُمَا ۙ قَالَ یٰمُوۡسٰۤی اَتُرِیۡدُ اَنۡ تَقۡتُلَنِیۡ کَمَا قَتَلۡتَ نَفۡسًۢا بِالۡاَمۡسِ ٭ۖ اِنۡ تُرِیۡدُ اِلَّاۤ اَنۡ تَکُوۡنَ جَبَّارًا فِی الۡاَرۡضِ وَ مَا تُرِیۡدُ اَنۡ تَکُوۡنَ مِنَ الۡمُصۡلِحِیۡنَ﴿۱۹﴾

۱۹۔ جب موسیٰ نے اس شخص پر ہاتھ ڈالنا چاہا جو ان دونوں کا دشمن تھا تو اس نے کہا: اے موسیٰ! کیا تم مجھے بھی اسی طرح قتل کر دینا چاہتے ہو جس طرح کل تم نے ایک شخص کو قتل کر دیا تھا؟ کیا تم زمین میں جابر بننا چاہتے ہو اور اصلاح کرنا نہیں چاہتے؟

19۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ گزشتہ روز کے قتل کی خبر شہر میں پھیل گئی تھی اور یہ پکارنے والا اسرائیلی نہیں ہو سکتا، کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اسرائیلی پر نہیں قبطی پر حملہ کرنا چاہتے تھے اور قبطی ہی عَدُوٌّ لَّہُمَا یعنی ان دونوں (موسیٰ اور اسرائیلی) کا دشمن تھا۔ اسرائیلی دونوں کا دشمن نہیں تھا وہ صرف قبطی کا دشمن تھا۔

وَ جَآءَ رَجُلٌ مِّنۡ اَقۡصَا الۡمَدِیۡنَۃِ یَسۡعٰی ۫ قَالَ یٰمُوۡسٰۤی اِنَّ الۡمَلَاَ یَاۡتَمِرُوۡنَ بِکَ لِیَقۡتُلُوۡکَ فَاخۡرُجۡ اِنِّیۡ لَکَ مِنَ النّٰصِحِیۡنَ﴿۲۰﴾

۲۰۔ شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آیا، کہنے لگا: اے موسیٰ ! دربار والے تیرے قتل کے مشورے کر رہے ہیں، پس (یہاں سے) نکل جا میں تیرے خیر خواہوں میں سے ہوں۔

20۔ فرعون کا قصر شہر کے کنارے واقع تھا۔ وہاں شاہی دربار میں یہ طے ہوا تھا کہ موسیٰ علیہ السلام کو اس قبطی کے قتل کے جرم میں قتل کیا جائے۔