بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

قَدۡ اَفۡلَحَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ۙ﴿۱﴾

۱۔ وہ ایمان والے یقینا فلاح پا گئے

1۔ فلاح و کامیابی کے لیے ایمان شرط ہے۔ ایمان دل سے باور کرنے اور یقین حاصل کرنے کا نام ہے۔ اگر صرف عدم انکار ہو تو اسے اسلام کہتے ہیں، جس پر صرف ظاہری احکام اسلام مرتب ہوتے ہیں مثلا حلیت ذبیحہ و مناکحہ وغیرہ۔ ایمان کے بعد فلاح کے لیے دوسری شرط نماز میں خشوع و انکساری ہے۔ واضح رہے کہ نماز خشوع قلب کے ساتھ قبول ہو گی اور نماز کی قبولیت پر ثواب و رضائے رب مترتب ہوتی ہے۔ اگر قبول نہ ہو تو ثواب نہیں ہے۔ نماز بجا لانے کی وجہ سے عذاب بھی نہیں ہے۔ تیسری شرط لغویات سے اجتناب ہے۔ لغو اس عمل کو کہتے ہیں جس کا فائدہ نہ دنیا کے لیے ہو اور نہ آخرت کے لیے۔ چوتھی شرط زکوٰۃ کا ادا کرنا ہے۔ واضح رہے کہ ہر قسم کے مال کا انفاق زکوٰۃ ہے، آگے اس کی اصطلاحات مختلف ہیں۔ مثلاً خمس، فطرہ، عشر وغیرہ۔ پانچویں شرط پاکدامنی و عفت ہے۔ چھٹی شرط امانتوں کی ادائیگی اور معاہدوں کی پابندی ہے۔ واضح رہے کہ یہ دونوں باتیں اسلام کے نزدیک انسانی حقوق میں شامل ہیں۔ فریق مقابل خواہ مسلم ہو یا غیر مسلم، اس کے معاملے میں امانت کی ادائیگی اور معاہدوں کی پاسداری لازمی ہے۔ ساتویں شرط نمازوں کی محافظت ہے۔ یعنی نماز کے اوقات اور حدود کی محافظت۔ ایسے لوگ جنت فردوس کے مالک و وارث ہوں گے۔ حدیث نبوی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہے کہ تم میں سے کوئی ایسا نہیں جس کے لیے دو مقام نہ ہوں: ایک جنت میں اور ایک جہنم میں۔ پس اگر کوئی جہنم جاتا ہے تو جنت میں اس کے مقام کے وارث اہل جنت ہوں گے۔ یعنی اپنے اعمال کی جزا میں جو مقام ملے گا یہ اس کے علاوہ ہے اور بغیر زحمت کے اللہ کی طرف سے عنایۃً مل رہا ہے۔ اس لیے اس کو وراثت سے تعبیر فرمایا ہے۔

الَّذِیۡنَ ہُمۡ فِیۡ صَلَاتِہِمۡ خٰشِعُوۡنَ ۙ﴿۲﴾

۲۔ جو اپنی نماز میں خشوع کرنے والے ہیں،

وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَنِ اللَّغۡوِ مُعۡرِضُوۡنَ ﴿ۙ۳﴾

۳۔ اور جو لغویات سے منہ موڑنے والے ہیں،

وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ لِلزَّکٰوۃِ فٰعِلُوۡنَ ۙ﴿۴﴾

۴۔ اور جو زکوٰۃ کا عمل انجام دینے والے ہیں،

وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ لِفُرُوۡجِہِمۡ حٰفِظُوۡنَ ۙ﴿۵﴾

۵۔ اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں،

اِلَّا عَلٰۤی اَزۡوَاجِہِمۡ اَوۡ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُہُمۡ فَاِنَّہُمۡ غَیۡرُ مَلُوۡمِیۡنَ ۚ﴿۶﴾

۶۔ سوائے اپنی بیویوں اور ان کنیزوں کے جو ان کی ملکیت ہوتی ہیں کیونکہ ان پر کوئی ملامت نہیں ہے۔

6۔ اس آیت سے لوگ حرمت متعہ پر استدلال کرتے ہیں کہ متعہ والی عورت نہ تو ازواج کے حکم میں شامل ہے اور نہ لونڈی کے حکم میں ہے۔ جبکہ اسی آیت سے یہ ثابت ہے کہ متعہ والی عورت ازواج میں شامل ہے۔ کیونکہ یہ آیت بالاتفاق مکی ہے اور متعہ دور مکی میں بالاتفاق جائز اور مشروع تھا۔ غیر امامیہ کا اس بات میں اختلاف ہے کہ متعہ کی حرمت کا حکم خیبر کے موقع پر آیا تھا یا فتح مکہ کے سال۔ لہٰذا اس آیت کے نزول کے موقع پر جب متعہ جائز تھا تو متعہ والی عورت لونڈی یقینا نہیں تھی، لہذا ازواج میں یقینا شامل تھی۔ بعض اہل قلم کا قانونِ متعہ پر اعتراض قابل مطالعہ ہے جو فی الحقیقت اس کے مقنن پر اعتراض ہے۔

فَمَنِ ابۡتَغٰی وَرَآءَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡعٰدُوۡنَ ۚ﴿۷﴾

۷۔لہٰذا جو ان کے علاوہ اور وں کے طالب ہو جائیں تو وہ زیادتی کرنے والے ہوں گے۔

وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ لِاَمٰنٰتِہِمۡ وَ عَہۡدِہِمۡ رٰعُوۡنَ ۙ﴿۸﴾

۸۔ اور وہ جو اپنی امانتوں اور معاہدوں کا پاس رکھنے والے ہیں،

وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَلٰی صَلَوٰتِہِمۡ یُحَافِظُوۡنَ ۘ﴿۹﴾

۹۔ اور جو اپنی نمازوں کی محافظت کرنے والے ہیں،

اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡوٰرِثُوۡنَ ﴿ۙ۱۰﴾

۱۰۔ یہی لوگ وارث ہوں گے،