اِلَّا عَلٰۤی اَزۡوَاجِہِمۡ اَوۡ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُہُمۡ فَاِنَّہُمۡ غَیۡرُ مَلُوۡمِیۡنَ ۚ﴿۶﴾

۶۔ سوائے اپنی بیویوں اور ان کنیزوں کے جو ان کی ملکیت ہوتی ہیں کیونکہ ان پر کوئی ملامت نہیں ہے۔

6۔ اس آیت سے لوگ حرمت متعہ پر استدلال کرتے ہیں کہ متعہ والی عورت نہ تو ازواج کے حکم میں شامل ہے اور نہ لونڈی کے حکم میں ہے۔ جبکہ اسی آیت سے یہ ثابت ہے کہ متعہ والی عورت ازواج میں شامل ہے۔ کیونکہ یہ آیت بالاتفاق مکی ہے اور متعہ دور مکی میں بالاتفاق جائز اور مشروع تھا۔ غیر امامیہ کا اس بات میں اختلاف ہے کہ متعہ کی حرمت کا حکم خیبر کے موقع پر آیا تھا یا فتح مکہ کے سال۔ لہٰذا اس آیت کے نزول کے موقع پر جب متعہ جائز تھا تو متعہ والی عورت لونڈی یقینا نہیں تھی، لہذا ازواج میں یقینا شامل تھی۔ بعض اہل قلم کا قانونِ متعہ پر اعتراض قابل مطالعہ ہے جو فی الحقیقت اس کے مقنن پر اعتراض ہے۔