بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

سورﮤ یونس

یہ سورہ مکہ میں نازل ہوا اور مضمون سورہ سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ یہ مکی زندگی کے اواخر میں نازل ہوا ہو گا جب مسلمانوں پر سختیوں میں اور اضافہ ہوا ہے، جس کی بنا پر مسلمانوں کو فتح و نصرت کی نوید دی جاتی تھی: وَلَا يَرْہَقُ وُجُوْہَھُمْ قَتَرٌ وَّلَا ذِلَّۃٌ ۔ (یونس:26) ان کے چہروں پر نہ سیاہ (دھبہ) ہو گا نہ ذلت (کے آثار)۔

دوسرا قرینہ یہ ہے کہ اس سورہ سے پہلے قرآن کا ایک معتدبہ حصہ نازل ہو چکا تھا۔ چنانچہ منکرین کا یہ مطالبہ اسی سورہ میں ہے: اِئْتِ بِقُرْاٰنٍ غَيْرِ ھٰذَآ اَوْ بَدِّلْہُ اس قرآن کے سوا کوئی اور قرآن لاؤ یا اس کو بدل دو یعنی ترمیم کرو۔ (یونس:15)

اس سورہ میں باقی سورہ ہائے مکی کی طرح اصول عقائد کے بارے میں مباحث ملتے ہیں، یعنی توحید، نبوت، حیات اخروی اور ان پر منکرین کی طرف سے عائد کردہ شبہات کا جواب اور تحریک توحید کے تاریخ ساز انبیاء اور ان کے مقابلے میں آنے والے منکرین کا ذکر۔

الٓرٰ ۟ تِلۡکَ اٰیٰتُ الۡکِتٰبِ الۡحَکِیۡمِ﴿۱﴾

۱۔ الف لام را۔یہ اس کتاب کی آیات ہیں جو حکمت والی ہے۔

اَکَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا اَنۡ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰی رَجُلٍ مِّنۡہُمۡ اَنۡ اَنۡذِرِ النَّاسَ وَ بَشِّرِ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنَّ لَہُمۡ قَدَمَ صِدۡقٍ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ ؕؔ قَالَ الۡکٰفِرُوۡنَ اِنَّ ہٰذَا لَسٰحِرٌ مُّبِیۡنٌ﴿۲﴾

۲۔ کیا لوگوں کے لیے یہ تعجب کی بات ہے کہ ہم نے خود انہیں میں سے ایک شخص کی طرف وحی بھیجی کہ لوگوں کو تنبیہ کرے اور جو ایمان لائیں انہیں بشارت دے کہ ان کے لیے ان کے رب کے پاس سچا مقام ہے، (اس پر) کافروں نے کہا: یہ شخص تو بلاشبہ صریح جادوگر ہے۔

2۔ معاندین اور منکرین کے خیالات کے برخلاف یہ کتاب حکمت آمیز باتوں سے پر ہے۔ نہ شاعرانہ تخیلات کا مجموعہ ہے نہ زبانی جادوگری ہے بلکہ یہ قرآن حکیمانہ باتوں کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کراتا ہے۔ لوگوں کو فکر و نظر کی دعوت دیتا ہے۔ عقل و استدلال اور منطق کو قیمت دیتا ہے۔ لوگوں کے باطل رجحانات کو فروغ دے کر ان کا استحصال نہیں کرتا بلکہ باطل نظریات کا مقابلہ کر کے لوگوں کی حق کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔

یہ لوگ نہ وحی کو سمجھ سکے، نہ ہی انسانی مقام کو۔ ان کے خیال میں انسان اس بات کا اہل نہیں ہے کہ اللہ کا نمائندہ بنے۔

پوری تاریخ میں منکرین نے ہمیشہ انبیاء کو ساحر کہا ہے۔ یہ الزام اس بات کا اعتراف ہے کہ رسول اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عام بشری سطح سے بالاتر ہیں اور جادو کا الزام صرف انکار کے لیے بہانہ ہے۔

اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ فِیۡ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ یُدَبِّرُ الۡاَمۡرَ ؕ مَا مِنۡ شَفِیۡعٍ اِلَّا مِنۡۢ بَعۡدِ اِذۡنِہٖ ؕ ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمۡ فَاعۡبُدُوۡہُ ؕ اَفَلَا تَذَکَّرُوۡنَ﴿۳﴾

۳۔ یقینا تمہارا رب وہ اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر اس نے عرش پر اقتدار قائم کیا، وہ تمام امور کی تدبیر فرماتا ہے، اس کی اجازت کے بغیر کوئی شفاعت کرنے والا نہیں ہے، یہی اللہ تو تمہارا رب ہے پس اس کی عبادت کرو، کیا تم نصیحت نہیں لیتے؟

3۔کائنات کو چھ مختلف مرحلوں میں پیدا کرنے کے بعد وہ عرش سلطنت پر متمکن ہوا۔ کوئی چیز اس کے قبضۂ اقتدار اور تدبیر سے خارج نہیں ہے اور اس کائنات میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ یُدَبِّرُ الۡاَمۡرَ کے تحت ہو رہا ہے، یعنی اس کے حکم و تدبیر یا اس کے اذن سے ہو رہا ہے اور اس کائنات کی تدبیر و تنظیم کا وہی منتہیٰ ہے۔ اگر کوئی کام اس کے اذن سے ہوتا ہے، مثلاً شفاعت تو بھی مرکز و مصدر تنظیم و تدبیر وہی ذات ہے۔

اِلَیۡہِ مَرۡجِعُکُمۡ جَمِیۡعًا ؕ وَعۡدَ اللّٰہِ حَقًّا ؕ اِنَّہٗ یَبۡدَؤُا الۡخَلۡقَ ثُمَّ یُعِیۡدُہٗ لِیَجۡزِیَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ بِالۡقِسۡطِ ؕ وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَہُمۡ شَرَابٌ مِّنۡ حَمِیۡمٍ وَّ عَذَابٌ اَلِیۡمٌۢ بِمَا کَانُوۡا یَکۡفُرُوۡنَ﴿۴﴾

۴۔ تم سب کی بازگشت اسی کی طرف ہے، اللہ کا وعدہ حق پر مبنی ہے، وہی خلقت کی ابتدا کرتا ہے پھر وہی اسے دوبارہ پیدا کرے گا تاکہ جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے انہیں انصاف کے ساتھ جزا دے اور جو کافر ہوئے انہیں اپنے کفر کی پاداش میں کھولتا ہوا پانی پینا ہو گا اور انہیں دردناک عذاب (بھی) بھگتنا ہو گا۔

4۔ انسانی خلقت میں یہ بات ودیعت کر دی گئی ہے کہ اسے اللہ کی بارگاہ تک جانا ہے۔ لہٰذا اپنی جائے بازگشت سے پہلے جن ارتقائی مراحل سے گزرنا ہوتا ہے ان میں انسان کو لاکھ نعمت و آسائش میسر آئے اسے نہ صرف یہ کہ قرار نہیں آتا بلکہ مزید بے چین ہو جاتا ہے، کیونکہ یہ اس دنیا کے لیے خلق نہیں کیا گیا ہے۔

جو اس انسان کو عدم سے وجود میں لایا ہے وہی اسے دوبارہ پیدا کرے گا۔ اگر دوبارہ پیدا کرنا نہ ہوتا تو ابتدا میں بھی پیدا نہ کرتا کیونکہ نیک لوگوں کو جزا اور برے لوگوں کو سزا نہ ملے تو یہ زندگی عبث ہو جاتی ہے۔

ہُوَ الَّذِیۡ جَعَلَ الشَّمۡسَ ضِیَآءً وَّ الۡقَمَرَ نُوۡرًا وَّ قَدَّرَہٗ مَنَازِلَ لِتَعۡلَمُوۡا عَدَدَ السِّنِیۡنَ وَ الۡحِسَابَ ؕ مَا خَلَقَ اللّٰہُ ذٰلِکَ اِلَّا بِالۡحَقِّ ۚ یُفَصِّلُ الۡاٰیٰتِ لِقَوۡمٍ یَّعۡلَمُوۡنَ﴿۵﴾

۵۔ وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن کیا اور چاند کو چمک دی اور اس کی منزلیں بنائیں تاکہ تم برسوں کی تعداد اور حساب معلوم کر سکو، اللہ نے یہ سب کچھ صرف حق کی بنیاد پر خلق کیا ہے، وہ صاحبان علم کے لیے اپنی آیات کھول کر بیان کرتا ہے۔

5۔ سورج اور چاند اہل ارض کے لیے قدرت کے دو حسین مناظر ہیں۔ چاند رات کی تاریکی میں چراغ کا کام دینے کے ساتھ ساتھ قدرتی تقویم بھی ہے جس سے ہر خواندہ ناخواندہ استفادہ کر سکتا ہے اور مہینے کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے کہ پندرہ دنوں میں چاند بڑھتا جاتا ہے اور دوسرے پندرہ دنوں میں گھٹتا رہتا ہے۔ اس طرح مہینوں کا حساب آسان اور سادہ بنایا ہے۔

اِنَّ فِی اخۡتِلَافِ الَّیۡلِ وَ النَّہَارِ وَ مَا خَلَقَ اللّٰہُ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یَّتَّقُوۡنَ﴿۶﴾

۶۔ بے شک رات اور دن کی آمد و رفت میں اور جو کچھ اللہ نے آسمانوں اور زمین میں پیدا کیا ہے ان میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو (ہلاکت سے) بچنا چاہتے ہیں۔

6۔ قرآن وجدان، عقل اور قلب سے سروکار رکھتا ہے۔ لیکن اس آیت میں صاحبان تقویٰ کو یہ دعوت دی جا رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عقل و خرد والوں کو ہی خطرے کا احساس ہوتا ہے جس کی وجہ سے بچنے کا اہتمام کیا جاتا ہے، اس طرح تقویٰ یعنی اپنا بچاؤ کرنا عقل و خرد کا لازمہ ہے۔

اِنَّ الَّذِیۡنَ لَا یَرۡجُوۡنَ لِقَآءَنَا وَ رَضُوۡا بِالۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَ اطۡمَاَنُّوۡا بِہَا وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَنۡ اٰیٰتِنَا غٰفِلُوۡنَ ۙ﴿۷﴾

۷۔ بے شک جو لوگ ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے اور دنیاوی زندگی ہی پر راضی ہیں اور اسی میں اطمینان محسوس کرتے ہیں اور جو لوگ ہماری نشانیوں سے غفلت برتتے ہیں،

اُولٰٓئِکَ مَاۡوٰىہُمُ النَّارُ بِمَا کَانُوۡا یَکۡسِبُوۡنَ﴿۸﴾

۸۔ ان کا ٹھکانا جہنم ہے ان اعمال کی پاداش میں جن کا یہ ارتکاب کرتے رہتے ہیں۔

اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ یَہۡدِیۡہِمۡ رَبُّہُمۡ بِاِیۡمَانِہِمۡ ۚ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہِمُ الۡاَنۡہٰرُ فِیۡ جَنّٰتِ النَّعِیۡمِ﴿۹﴾

۹۔ جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے بے شک ان کا رب ان کے ایمان کے سبب انہیں نعمتوں والی جنتوں کی راہ دکھائے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔

9۔جنات نعیم تک رہنمائی کے لیے بنیادی محرک ایمان ہے اور عمل صالح اس محرک کے لیے معاون ہے۔ چونکہ عمل صالح کے لیے بھی ایمان محرک ہے، لہٰذا ایمان انسان کو ارتقائی منازل سے گزار کر منتہائے مقصود یعنی اللہ تک پہنچانے کا ضامن ہے: وَاَنَّ اِلٰى رَبِّكَ الْمُنْتَہٰى (نجم:42) اور یہ بات ذہن نشین ہونی چاہیے کہ جنت تقرب الٰہی کی ایک تعبیر ہے۔

دَعۡوٰىہُمۡ فِیۡہَا سُبۡحٰنَکَ اللّٰہُمَّ وَ تَحِیَّتُہُمۡ فِیۡہَا سَلٰمٌ ۚ وَ اٰخِرُ دَعۡوٰىہُمۡ اَنِ الۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ﴿٪۱۰﴾

۱۰۔ جہاں ان کی صدا سبحانک اللّٰھم (اے اللہ تیری ذات پاک ہے) اور وہاں ان کی تحیت سلام ہو گی اور ان کی دعا کا خاتمہ الحمد للّٰہ رب العالمین ہو گا۔

10۔ اس قرب الٰہی کی فضا میں اہل جنت کے لیے سب سے زیادہ محبوب ترین مشغلہ وہی تسبیح ہو گی جس تسبیح سے وہ دنیاوی زندگی میں مانوس رہ چکے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ دنیا میں وہ اپنے رب پر ایمان بالغیب رکھتے تھے اور آخرت میں شہود کے مرحلے میں داخل ہوئے ہوں گے، پردے اٹھ گئے ہوں گے اور اللہ کی عظمت اور اس کی بے پایاں رحمتوں کا قریب سے مشاہدہ کر رہے ہوں گے۔ ایسے ماحول میں سُبۡحٰنَکَ اللّٰہُمَّ کے ورد میں کیا کیف و سرور ہو گا اس کا اندازہ ہم اس مادی ماحول میں نہیں کر سکتے۔