آیات 9 - 10
 

اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ یَہۡدِیۡہِمۡ رَبُّہُمۡ بِاِیۡمَانِہِمۡ ۚ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہِمُ الۡاَنۡہٰرُ فِیۡ جَنّٰتِ النَّعِیۡمِ﴿۹﴾

۹۔ جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے بے شک ان کا رب ان کے ایمان کے سبب انہیں نعمتوں والی جنتوں کی راہ دکھائے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔

دَعۡوٰىہُمۡ فِیۡہَا سُبۡحٰنَکَ اللّٰہُمَّ وَ تَحِیَّتُہُمۡ فِیۡہَا سَلٰمٌ ۚ وَ اٰخِرُ دَعۡوٰىہُمۡ اَنِ الۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ﴿٪۱۰﴾

۱۰۔ جہاں ان کی صدا سبحانک اللّٰھم (اے اللہ تیری ذات پاک ہے) اور وہاں ان کی تحیت سلام ہو گی اور ان کی دعا کا خاتمہ الحمد للّٰہ رب العالمین ہو گا۔

تفسیر آیات

۱۔ دوسری طرف جنات نعیم تک راہنمائی کے لیے بنیاد ایمان ہے۔ جس طرح کفر انسان کو جہنم تک پہنچاتا ہے، اسی طرح ایمان انسان کو جنت نعیم تک پہنچا دیتا ہے اور عمل اس بنیادکے لیے معاون کی حیثیت رکھتا ہے۔ لہٰذا ایمان انسان کو ارتقائی مراحل سے گزار کر منتہائے مقصود، اللہ تک پہنچانے کا ضامن ہے:

وَ اَنَّ اِلٰی رَبِّکَ الۡمُنۡتَہٰی ﴿ۙ﴾ (۵۳ نجم:۴۲)

اور یہ کہ (منتہائے مقصود) آپ کے رب کے پاس پہنچنا ہے۔

۲۔ دَعۡوٰىہُمۡ فِیۡہَا: یہ بات ذہن نشین ہونی چاہیے کہ جنت تقرب الٰہی کی ایک تعبیر ہے۔ اصل نعمت جو قیامت کے دن مؤمن کو ملے گی وہ قرب الٰہی ہے۔ اس قرب الٰہی کی فضا میں اہل جنت کے لیے سب سے زیادہ محبوب مشغلہ وہی تسبیح ہو گی۔ جس تسبیح سے وہ اس دنیاوی زندگی میں مانوس رہ چکے ہیں اسی نغمہ میں جنت میں جب وہ تسبیح کر رہے ہوں گے تو ان کو جو لطف اور لذت اس تسبیح سے حاصل ہو گی وہ ناقابل وصف و بیان ہے کیونکہ یہ مؤمن دنیا میں اسی تسبیح و حمد سے کیف و سرور میں آتا تھا۔ اس کا ضمیر اور اس کا وجدان کیف محسوس کرتا تھا۔ وہ اس دنیا میں اپنے رب پر ایمان بالغیب رکھتا تھا لیکن آخرت میں وہ شہود کے مرحلہ میں ہو گا۔ پردے اٹھ گئے ہوں گے۔ اللہ کے جوار میں مقام قربت پر فائز ہو گا۔ اس وقت اللہ کی عظمت، اس کی بے پایاں رحمتوں کا قریب سے مشاہدہ کر رہا ہو گا۔ ایسے ماحول میں سُبۡحٰنَکَ اللّٰہُمَّ کا ورد کس قدر لذت بخش ہو گا، اس کا اندازہ ہم اس مادی زندگی میں نہیں کر سکتے۔ دعوی اگرچہ اکثر ادعا کے لیے استعمال ہوتا ہے لیکن آیت میں دعا کے معنوں میں ہے۔

۳۔ وَ تَحِیَّتُہُمۡ فِیۡہَا سَلٰمٌ: اسی طرح اللہ کے جوار میں امن و سلامتی کا جو عالم ہو گا اور سلام علیکم کا جو مفہوم وہاں ہو گا اس کا بھی ہم اس ناسوتی زندگی میں اندازہ نہیں لگا سکتے۔

علامہ طباطبائیؒ اپنی تفسیر میں متعدد آیات سے نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اللہ دنیا میں صرف اپنے خاص بندوں یعنی انبیاء ؑ کی حمد کا ذکر کرتا ہے اور آخرت میں اہل جنت کی حمد کا ذکر کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اہل جنت کو اللہ اپنے عباد مخلصین میں شامل فرماتا ہے۔ اور یہ سب سے بڑی نعمت ہو گی۔

۴۔ وَ اٰخِرُ دَعۡوٰىہُمۡ: اہل جنت جب اللہ کی حمد اور تسبیح بجا لاتے ہیں تو اس کو الۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ پر ختم کرتے ہیں جس طرح ہم دنیا میں برحمتک یا ارحم الراحمین پر ختم کرتے ہیں۔ شاید یہ فرق ہو کہ ہم دنیا میں طلب رحمت کرتے ہیں تو ارحم الراحمین کو دعا کا خاتمہ قرار دیتے ہیں ، اہل جنت، رحمت حاصل ہونے کی وجہ سے الۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ کہتے ہیں۔ چنانچہ دنیا میں بھی مؤمن کو جب کوئی نعمت ملتی ہے تو وہ الۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ کہتا ہے۔

اہم نکات

۱۔ ایمان، ارتقا کا واحد زینہ ہے۔ یَہۡدِیۡہِمۡ رَبُّہُمۡ بِاِیۡمَانِہِمۡ ۔۔۔۔

۲۔ حمد تسبیح ہی جنت کی نعمت ہے مؤمن کو اس سے مانوس رہنا چاہیے۔ دَعۡوٰىہُمۡ فِیۡہَا سُبۡحٰنَکَ


آیات 9 - 10