آیت 4
 

اِلَیۡہِ مَرۡجِعُکُمۡ جَمِیۡعًا ؕ وَعۡدَ اللّٰہِ حَقًّا ؕ اِنَّہٗ یَبۡدَؤُا الۡخَلۡقَ ثُمَّ یُعِیۡدُہٗ لِیَجۡزِیَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ بِالۡقِسۡطِ ؕ وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَہُمۡ شَرَابٌ مِّنۡ حَمِیۡمٍ وَّ عَذَابٌ اَلِیۡمٌۢ بِمَا کَانُوۡا یَکۡفُرُوۡنَ﴿۴﴾

۴۔ تم سب کی بازگشت اسی کی طرف ہے، اللہ کا وعدہ حق پر مبنی ہے، وہی خلقت کی ابتدا کرتا ہے پھر وہی اسے دوبارہ پیدا کرے گا تاکہ جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے انہیں انصاف کے ساتھ جزا دے اور جو کافر ہوئے انہیں اپنے کفر کی پاداش میں کھولتا ہوا پانی پینا ہو گا اور انہیں دردناک عذاب (بھی) بھگتنا ہو گا۔

تفسیر آیات

۱۔ اِلَیۡہِ مَرۡجِعُکُمۡ: انسانی خلقت میں یہ بات ودیعت ہے کہ اس کو اللہ کی بارگاہ تک جانا ہے۔ لہٰذا اپنی جائے بازگشت سے پہلے جن تکاملی و ارتقائی مراحل سے گزرنا ہے، ان میں انسان کو لاکھ نعمت و آسائش میسر آئے اس کو نہ صرف قرار نہیں آتا بلکہ مزید بے چین ہو جاتا ہے کیونکہ اس کو اس دنیا کے لیے خلق نہیں کیا گیا ہے۔

۲۔ اِنَّہٗ یَبۡدَؤُا الۡخَلۡقَ: جو اس انسان کو عدم سے وجود میں لایا ہے وہی اسے دوبار پیدا کرے گا۔ اگر دوبارہ پیدا کرنا نہ ہوتا تو ابتدا میں بھی پیدا نہ کرتا کیونکہ اس صورت میں خلقت عبث ہوتی۔ مزید تشریح کے لیے سورۃ الاعراف آیت۲۹ ملاحظہ فرمائیں۔

۳۔ لِیَجۡزِیَ: اس دنیا میں سب ایک جیسے نہیں ہوتے۔ کچھ مؤمن اور نیک لوگ ہوتے ہیں اور کچھ کافر اور بدکردار ہوتے ہیں۔ یہ عدل الٰہی کے منافی ہے کہ نیک اور بد لوگ ایک جیسے ہوں۔ لہٰذا عدل و انصاف کے تحت دوسری زندگی ضروری ہے کہ نیک لوگوں کو جزا اور بد لوگوں کو سزا دی جائے۔

اہم نکات

۱۔ دنیا کی ناز نعمت کی فروانی میں بے چینی اور محرومیت میں سکون ملنا دلیل ہے کہ انسان ایک باز گشت کی طرف جانے کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ اِلَیۡہِ مَرۡجِعُکُمۡ جَمِیۡعًا ۔۔۔۔

۲۔ قیامت، ارتقائی سفر کا منتائے مقصد ہے۔ ثُمَّ یُعِیۡدُہٗ لِیَجۡزِیَ ۔۔۔۔


آیت 4