وَ لَا یُنۡفِقُوۡنَ نَفَقَۃً صَغِیۡرَۃً وَّ لَا کَبِیۡرَۃً وَّ لَا یَقۡطَعُوۡنَ وَادِیًا اِلَّا کُتِبَ لَہُمۡ لِیَجۡزِیَہُمُ اللّٰہُ اَحۡسَنَ مَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ﴿۱۲۱﴾

۱۲۱۔اور (اسی طرح) وہ جو کچھ خرچ کرتے ہیں خواہ چھوٹا ہو یا بڑا اور جب کوئی وادی (بغرض جہاد) پار کرتے ہیں تو یہ سب ان کے حق میں لکھ دیا جاتا ہے تاکہ اللہ انہیں ان کے اچھے اعمال کا صلہ دے۔

وَ مَا کَانَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ لِیَنۡفِرُوۡا کَآفَّۃً ؕ فَلَوۡ لَا نَفَرَ مِنۡ کُلِّ فِرۡقَۃٍ مِّنۡہُمۡ طَآئِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّہُوۡا فِی الدِّیۡنِ وَ لِیُنۡذِرُوۡا قَوۡمَہُمۡ اِذَا رَجَعُوۡۤا اِلَیۡہِمۡ لَعَلَّہُمۡ یَحۡذَرُوۡنَ﴿۱۲۲﴾٪

۱۲۲۔اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ سب کے سب مومنین نکل کھڑے ہوں، پھر کیوں نہ ہر گروہ میں سے ایک جماعت نکلے تاکہ وہ دین کی سمجھ پیدا کریں اور جب اپنی قوم کی طرف واپس آئیں تو انہیں تنبیہ کریں تاکہ وہ (ہلاکت خیز باتوں سے) بچے رہیں۔

122۔ یہ آیت دینی تعلیم کے لیے ایک دستور وضع کرتی ہے: یہ تو ہو نہیں سکتا کہ تمام مومنین دینی تعلیم یا جہاد کے لیے نکل کھڑے ہوں۔ ایسا کرنا ممکن نہیں۔ لہٰذا کیوں نہ ان کے ہر گروہ سے ایک جماعت علمی مراکز کی طرف سفر کرے، جہاں سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد واپس آئے اور اپنی قوم کو تعلیم دے۔ تفقہ فی الدین دین کی سمجھ سے مراد صرف اصطلاحی فقہ نہیں ہے بلکہ اسلامی نظام حیات کا فہم و ادراک ہے۔ بالفاظ دیگر ہر وہ علم جو مسلمانوں کے لیے دین و دنیا میں فائدہ مند ہو دینی علم ہے۔ ہاں استعمار نے علم کو علم دین اور علوم دنیا میں تقسیم کیا ہے۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا قَاتِلُوا الَّذِیۡنَ یَلُوۡنَکُمۡ مِّنَ الۡکُفَّارِ وَ لۡیَجِدُوۡا فِیۡکُمۡ غِلۡظَۃً ؕ وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ مَعَ الۡمُتَّقِیۡنَ﴿۱۲۳﴾ ۞ٙ

۱۲۳۔ اے ایمان والو! ان کافروں سے جنگ کرو جو تمہارے نزدیک ہیں اور چاہیے کہ وہ تمہارے اندر ٹھوس شدت کا احساس کریں اور جان رکھو اللہ متقین کے ساتھ ہے۔

123۔ آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ سرحدی علاقوں کے مسلمانوں پر واجب ہے کہ اگر علاقے میں اسلام کے لیے خطرہ ہو تو وہ دفاع کرتے ہوئے کفار کے ساتھ جنگ کریں اور مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اسلامی اصولوں اور اقدار پر عمل کرنے کے حوالے سے غیر لچکدار رویہ رکھیں تاکہ کفار کو محسوس ہو کہ مسلمان اپنے مؤقف میں کسی قسم کی سودے بازی اور سازش کا شکار نہیں ہوں گے۔ دشمن ہمیشہ اپنے مدمقابل کا کمزور پہلو تلاش کرتا ہے تاکہ وہاں سے اس پر حملہ کرے۔ جب اسلام دشمن دیکھیں گے کہ مسلمان ہر اعتبار سے مضبوط ہیں اور ٹھوس مؤقف رکھتے ہیں اور ان میں کوئی کمزور پہلو نہیں تو وہ ناکام ہو جاتے ہیں۔ آیت میں اس خصوصیت کے حصول کا طریقہ تقویٰ الٰہی ذکر ہوا ہے کہ اللہ متقین کے ساتھ ہے۔

وَ اِذَا مَاۤ اُنۡزِلَتۡ سُوۡرَۃٌ فَمِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّقُوۡلُ اَیُّکُمۡ زَادَتۡہُ ہٰذِہٖۤ اِیۡمَانًا ۚ فَاَمَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا فَزَادَتۡہُمۡ اِیۡمَانًا وَّ ہُمۡ یَسۡتَبۡشِرُوۡنَ﴿۱۲۴﴾

۱۲۴۔اور جب کوئی سورت نازل ہوتی ہے تو ان میں سے کچھ لوگ (از راہ تمسخر) کہتے ہیں: اس سورت نے تم میں سے کس کے ایمان میں اضافہ کیا ہے؟ پس ایمان والوں کے ایمان میں تو اس نے اضافہ ہی کیا ہے اور وہ خوشحال ہیں۔

وَ اَمَّا الَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ فَزَادَتۡہُمۡ رِجۡسًا اِلٰی رِجۡسِہِمۡ وَ مَا تُوۡا وَ ہُمۡ کٰفِرُوۡنَ﴿۱۲۵﴾

۱۲۵۔ اور البتہ جن کے دلوں میں بیماری ہے ان کی نجاست پر اس نے مزید نجاست کا اضافہ کیا ہے اور وہ مرتے دم تک کفر پر ڈٹے رہے۔

124۔125۔ منافق اپنے دل کی کیفیت پر دوسروں کو قیاس کرتے ہوئے یہ خیال کرتے تھے کہ جس طرح ان کے دل پر اس کا کوئی اثر نہیں ہے، اسی طرح کسی کے دل پر اس کا کوئی اثر مترتب نہیں ہو رہا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے اس تصور کی رد میں فرمایا کہ سارے دل یکساں نہیں ہوتے۔ اگرچہ قرآن سب کے لیے ہدایت ہے مگر اس سے فیض لینے والے یکساں نہیں۔ آفتاب سب کو نور دیتاہے، بارش سب کے لیے فیض دیتی ہے، لیکن فیض لینے والے یکساں نہیں ہوتے۔ مومن کا دل زرخیز ہوتا ہے اس پر قرآنی بارش جس قدر زیادہ برسے گی اتنی ہی اس میں شادابی آئے گی جب کہ منافق کا دل شورہ زار ہے، اس پر قرآنی بارش جس قدر زیادہ برسے گی اتنا ہی اس کی شورہ زاری میں اضافہ ہو گا۔ یعنی ہر جدید سورہ ایک معجزہ، ایک رہنمائی، ایک حیات بخش دستور لے کر آتا ہے تو مومن کا دل ایمان کے نور سے اور منور ہوتا ہے، جبکہ کافر پہلے بھی شک میں تھا، جدید سورہ میں بھی شک کرتا ہے تو اس کے شک اور خباثت میں اور اضافہ ہوتا ہے۔

اَوَ لَا یَرَوۡنَ اَنَّہُمۡ یُفۡتَنُوۡنَ فِیۡ کُلِّ عَامٍ مَّرَّۃً اَوۡ مَرَّتَیۡنِ ثُمَّ لَا یَتُوۡبُوۡنَ وَ لَا ہُمۡ یَذَّکَّرُوۡنَ﴿۱۲۶﴾

۱۲۶۔ کیا یہ لوگ نہیں دیکھتے کہ انہیں ہر سال ایک یا دو مرتبہ آزمائش میں ڈالا جاتا ہے؟ پھر نہ تو وہ توبہ کرتے ہیں اور نہ ہی عبرت حاصل کرتے ہیں۔

وَ اِذَا مَاۤ اُنۡزِلَتۡ سُوۡرَۃٌ نَّظَرَ بَعۡضُہُمۡ اِلٰی بَعۡضٍ ؕ ہَلۡ یَرٰىکُمۡ مِّنۡ اَحَدٍ ثُمَّ انۡصَرَفُوۡا ؕ صَرَفَ اللّٰہُ قُلُوۡبَہُمۡ بِاَنَّہُمۡ قَوۡمٌ لَّا یَفۡقَہُوۡنَ﴿۱۲۷﴾

۱۲۷۔اور جب کوئی سورت نازل ہوتی ہے تو وہ ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہیں کہ کوئی تمہیں دیکھ تو نہیں رہا؟ پھر نکل کر بھاگتے ہیں، اللہ نے ان کے دلوں کو پھیر رکھا ہے کیونکہ یہ ناسمجھ لوگ ہیں۔

لَقَدۡ جَآءَکُمۡ رَسُوۡلٌ مِّنۡ اَنۡفُسِکُمۡ عَزِیۡزٌ عَلَیۡہِ مَا عَنِتُّمۡ حَرِیۡصٌ عَلَیۡکُمۡ بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ رَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ﴿۱۲۸﴾

۱۲۸۔ بتحقیق تمہارے پاس خود تم ہی میں سے ایک رسول آیا ہے تمہیں تکلیف میں دیکھنا ان پر شاق گزرتا ہے، وہ تمہاری بھلائی کا نہایت خواہاں ہے اور مومنین کے لیے نہایت شفیق، مہربان ہے۔

128۔ منافقین کے خلاف مذکورہ رویہ اس لیے اختیار کیا جاتا ہے کہ وہ رحمت حق اور رحمت رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل نہیں ورنہ رسول رحمت صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خصوصیات یہ ہیں:٭ تمہیں تکلیف میں دیکھنا اسے شاق گزرتا ہے۔ ٭ وہ تمہاری بھلائی کے نہایت آرزومند ہیں۔٭ وہ مؤمنین کے لیے نہایت شفیق و مہربان ہیں۔

فَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَقُلۡ حَسۡبِیَ اللّٰہُ ۫٭ۖ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ؕ عَلَیۡہِ تَوَکَّلۡتُ وَ ہُوَ رَبُّ الۡعَرۡشِ الۡعَظِیۡمِ﴿۱۲۹﴾٪

۱۲۹۔ پھر اگر یہ روگردانی کریں تو آپ کہ دیجئے: میرے لیے اللہ ہی کافی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اسی پر میرا بھروسہ ہے اور وہی عرش عظیم کا رب ہے۔