اِلَیۡہِ مَرۡجِعُکُمۡ جَمِیۡعًا ؕ وَعۡدَ اللّٰہِ حَقًّا ؕ اِنَّہٗ یَبۡدَؤُا الۡخَلۡقَ ثُمَّ یُعِیۡدُہٗ لِیَجۡزِیَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ بِالۡقِسۡطِ ؕ وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَہُمۡ شَرَابٌ مِّنۡ حَمِیۡمٍ وَّ عَذَابٌ اَلِیۡمٌۢ بِمَا کَانُوۡا یَکۡفُرُوۡنَ﴿۴﴾

۴۔ تم سب کی بازگشت اسی کی طرف ہے، اللہ کا وعدہ حق پر مبنی ہے، وہی خلقت کی ابتدا کرتا ہے پھر وہی اسے دوبارہ پیدا کرے گا تاکہ جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے انہیں انصاف کے ساتھ جزا دے اور جو کافر ہوئے انہیں اپنے کفر کی پاداش میں کھولتا ہوا پانی پینا ہو گا اور انہیں دردناک عذاب (بھی) بھگتنا ہو گا۔

4۔ انسانی خلقت میں یہ بات ودیعت کر دی گئی ہے کہ اسے اللہ کی بارگاہ تک جانا ہے۔ لہٰذا اپنی جائے بازگشت سے پہلے جن ارتقائی مراحل سے گزرنا ہوتا ہے ان میں انسان کو لاکھ نعمت و آسائش میسر آئے اسے نہ صرف یہ کہ قرار نہیں آتا بلکہ مزید بے چین ہو جاتا ہے، کیونکہ یہ اس دنیا کے لیے خلق نہیں کیا گیا ہے۔

جو اس انسان کو عدم سے وجود میں لایا ہے وہی اسے دوبارہ پیدا کرے گا۔ اگر دوبارہ پیدا کرنا نہ ہوتا تو ابتدا میں بھی پیدا نہ کرتا کیونکہ نیک لوگوں کو جزا اور برے لوگوں کو سزا نہ ملے تو یہ زندگی عبث ہو جاتی ہے۔